کچھ لمحے زندان میں راشد کے ساتھ
تحریر: سنگت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ سرزمین پر دشمن کی ظلم و ستم، معصوم لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا، عقبوت خانوں میں مہینوں و سالوں قید رکھنا، انسانیت سوز تشدد کا شکار بنانا، انسانیت سوز تشدد کے بعد ویرانوں میں ان کی لاشیں پھینکنا اب بلوچ قوم کا قسمت بن چکا ہے۔ بلوچ ماؤں اور بہنوں کی آہ و فریاد، سالوں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیئے جہد مسلسل جاری رکھنا، ان کو دردر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور کرنا، دشمن سے زیادہ اپنوں کا اپنے سرزمین کا دشمن ہونا، روز مرہ کا حصہ بن چکا ہے۔ کئی دفعہ سوچا اپنے خیالات کو، اپنے درد کو، دکھ کو زبان دوں لیکن ہمیشہ کی طرح ناکامی میرا مقدر بنتا رہا، اب اس ناکامی کو میں اپنا نالائقی کہوں، کم علمی کہوں، لاپرواہی کہوں یا کچھ اور نام دوں۔
آج بڑے عرصے بعد کچھ لمحات قید کررہا ہوں، ان لمحات کو سانس دینے کی کوشش کررہا ہوں، ان لمحات کو زبان دینے کی کوشش کررہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ شاید کچھ بدلے، کچھ تبدیل ہو، کچھ احساسات محسوس ہوں، اب یہ میرا وہم ہے یا گمان میں کچھ نہیں کہہ سکتا بس لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔
بلوچ قومی تحریک جس رفتار سے آگے منزل کی طرف بڑھ رہا ہے، اسی رفتار سے ہم نے کئی اپنے کھوۓ ہیں، چاہے وہ بھائیوں کی شکل میں ہوں، دوستوں کی شکل میں یا رشتہ داروں کی شکل میں، اور بہت سے ایسے بھی اب ہم سے دور دشمن کی عقوبت خانوں میں قید ہیں، کھبی ان سے مل کرایسا لگا کہ ساتوں جنم ایسے ہی اکھٹے دست و بازو بن کررہینگے لیکن بے رحم وقت اور ظالم ریاست نے ان کو ہم سے دور کردیا، ہم سے زبردستی چھین کر اپنے عقوبت خانوں میں بندی کردیا، شاید وہ اس امید کے ساتھ ان دوستوں کو ہم سے چھین لیا کہ ان کا سوچ، فکر، نظریہ اور فلسفہ ہم تک نہ پہنچ سکے لیکن یہ دشمن کی کم عقلی ہے کیونکہ آج ان دوستوں نے ہمیں زبان دیاہے، شعور دیا ہے، عقل دیا ہے کہ راست اور حقیقت کے ساتھ ہوں۔
کل رات میں اپنے خیالات میں گم، دوستوں کی یادوں میں گم پتہ ہی نہیں چلا کہ کب کیسے اُن درد ناک، اذیت ناک، بدبودار، ٹارچر سیلوں میں پہنچ چکا تھا اور اپنے سامنے کئی چہرے دیکھ رہا تھا، جو زخموں سے چور، کچھ زمیں پر پڑے ہیں، کچھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہیں، کچھ بے لباس زمین پر بے ہوش پڑے ہیں، کچھ تڑپ رہے تھے اور مدد کے لیے چیخ رہے تھے مگر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ یہ دردناک منظر دیکھ کر میرے پسینے چھوٹ گئے، پیروں میں ایسی لرزش، ترتراہٹ جو میرے اپنے قابو میں نہیں تھا، کوشش کررہا تھا کہ اپنے جذبات کو، احساسات کو اپنے خوف کو چھپا سکوں اور آگے بڑھ کر دیکھ لوں یہ چہرے جو خون سے لت پت ہیں کون ہیں لیکن میرے پاؤں میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے، قریب ایک مٹکہ پڑا تھا جس کے اوپر ایک زنگ آلود گلاس تھا، اسے اٹھا کر پانی نکالنے کی کوشش کی تو قریب ایک سپاہی جو کہ چہرے سے انتہائی خوفناک لگ رہا تھا، مجھ سے گلاس چھین کر گالیاں دینا شروع کردیا اور مجھے مار مار کر زخمی کردیا اور لات مار مار کر ایک کمرے میں پھینک دیا، پھر مجھے ہوش نہ رہا۔
کئی گھنٹوں بعد جب آنکھ کھلی تو اپنے نزدیگ ایک مہروان دوست کو پایا، کوشش کی اس کو پہچان سکوں، لیکں تشدد اور درد کی وجہ سے پہچاننا ممکن نہیں ہوپارہا تھا، اسی دوران اس دوست نے مجھے سنبھالا اور کہا سنگت حوصلہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں مجھے کچھ سمجھ بھی نہیں آرہا تھا کہ یہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے، میں کہاں ہوں، یہاں تک کیسے پہنچا، جسم کی دردناک درد سے میری آنکھیں سُوج چکے تھے اور میں ایک جگہ زندہ لاش بن چکا تھا۔ کچھ گھنٹے بعد میں جب ہوش میں آیا تو سنگت کی طرف دیکھا، وہ بیٹھے بیٹھے سوچکا تھا، میلے کپڑے، داڑھی تین انچ لمبی، مونچھیں بڑے ہوچکے تھے، ہاتھ پاؤں زخمی، ہاتھوں کی انگولیاں ٹوٹے ہوئے تھے، یہ کیسا لمحہ ہے میرے سامنے کون ہے، کیوں ہے، یہاں کیسے پہنچا؟ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا، خیر سوچوں میں گم کب میری آنکھ لگ گئیں اور میں سوگیا مجھے پتہ بھی نہیں چلا۔
جب میں نیند سے بیدار ہوا تو سامنے سنگت بیٹھا ہوا میرے اُٹھنے کا انتظار کررہا تھا، جیسے ہی میں اُٹھا تو سنگت کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہا شکر ہے آپ ہوش میں آئے ہو، میں نے کہا جی میں پہلے اُٹھ چکا تھا لیکن آپ سورہے تھے۔ خیر سنگت نے مجھے پہچانا اور بولا یار آپ یہاں کیسے؟ میں نے حیرانگی سے جواب دیا پتہ نہیں مجھ جیسا ڈرپوک، نالائق، اپنے وجود سے ڈرا ہوا، یہاں کیسے آیا؟ نہیں پتہ۔
اسی دوران میں نے غور سے دیکھا تو مجھے لگا یہ سنگت راشد بلوچ ہوگا لیکن اتنا کمزور، داڑھی مونچھیں، میرے گمان میں نہیں تھا تو میں نے کہا آپ راشد ہو تو بولا ہاں لیکن افسوس آپ لوگ مجھے بھول چکے ہو، مجھے پہچانا تک نہیں، میں نے کہا یار بات یہ ہے جس وقت آپ سے ملا تھا اُس راشد میں اور آپ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، تو راشد مسکراتے ہوئے بولا کیا کروں ان حرامزادوں نے مجھ پر بہت تشدد کیا ہے، ذہنی تشدد بہت کی ہے روز ایک جھوٹ بولتے ہیں تاکہ میں کمزور ہو سکوں، یہ پنجابی کے بچے ہمیں کمزور کرنے کے لیے روز نئے نئے طریقے استعمال کرتے ہیں۔
اسی دوران راشد نے مجھ سے کہا خیر آپ سناؤ باہر سے ابھی آئے ہو، وہاں کیا حال احوال ہے، دوست کیسے ہیں، کام کیسے جارہے ہیں، سیاست کیسا چل رہا ہے؟
تو میں نے کہا سنگت سب ٹھیک چل رہا ہے، دوست بھی خیرو خیریت سے ہیں، کام بھی صحیح جارہے ہیں، اور سیاست وہ تو آپ کو خود پتہ ہے۔ تو اسی دوران راشد نے کہا آپ کا مطلب وہی پرانی پارٹی بازی، ضد و انا، بغض، ایک دوسرے پر سبقت، نفرت؟ میں نے کہا ہاں بس کیا کریں یار۔
لیکن راشد ایک بات بتاؤں یار تم اب بہت مشہور ہو چکے ہو، ہر جگہ احتجاج ہوتا ہے تو آپ کے پوسٹرز لازمی وہاں موجود ہوتے ہیں، پتہ ہے آپ کے نام سے ایک ہیش ٹیگ بھی بن چکا ہے #SaveRashidHussain اور ہر ہفتہ دس دن بعد آپ کے لیئے آپ کے فکری و نظریاتی دوست کیمپین بھی کرتے ہیں اور پچھلی دفعہ آپ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کررہا تھا، میں بول رہا تھا اپنے دل کی تمام باتیں راشد کو سنا رہا تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ راشد یہ سب سن کے پریشان ہورہا تھا، کسی وہم میں جاچکا تھا، اپنے آپ سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا، شاہد وہ اب مجھے سننا نہیں چاہ رہا ہوگا۔ اس لیئے میں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا اور راشد کی طرف دیکھنے لگا، بہت دیر تک وہ کچھ نہیں بول رہا تھا، بس اپنے سوچوں میں گم پتہ نہیں کہاں تک پہنچ چکا تھا، اسی دوران میں نے ہمت کرکے اس کو ہاتھ لگا کر ہلایا، تو وہ فوراً بولنے لگا کیا ہوا سنگت خیر ہے؟ میں نے کہا یار عجیب انسان ہو میں کب سے آپ سے بات کررہا ہوں، باہر کا حال احوال آپ کو سنا رہا ہوں اور ایک آپ ہو مجھے اگنور کررہے ہو، چلو بھائی میں اب خاموش ہوں کچھ نہیں بولونگا۔
راشد نے کہا سنگت باقی سب کا خیر ہے لیکن میرے لمہ کو پتہ نہیں لگا ہوگا نہ وہ پہلے سے بہت پریشان ہے، دیکھو نا ابھی کچھ وقت پہلے لمہ کا لاڈلا شہید دلجان کا شہادت ہوچکا ہے، اس سے پہلے انکل اور اس کے بچوں کے رشتہ داروں کا، ابھی اگر امی کو میرا پتہ چلا تو قسم سے وہ یہ درد نہیں سہہ سکے گئی، میں حیران ہو کرراشد کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا کہ راشد لمہ کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے اور لمہ کہاں سے کہاں تک کا سفر طے کرچکا ہے۔ خیر میں نے ہمت کرکے راشد کو دلاسہ دیا اور کہا یار آپ کو کیا لگتا ہے شہید دلجان کا لمہ اتنا کمزور ہوگا، یہ وہ لمہ ہے جس نے شہید دلجان کے ساتھ ساتھ شہید بارگ جان کو ابھی اپنا بیٹا کہہ کر اس کی لاش کو سنبھالا تھا اور آپ کو لگتا ہے آپ کے لیے وہ اتنا کمزور ہوگا؟ راشد پھل لمہ اب بہت مضبوط بن چکی ہے۔ بلوچستان کی تمام ماؤں کے لیے ایک امید بن چکی ہے۔ کوئٹہ سے لیکر کراچی تک لمہ مسلسل لاپتہ افراد کے لیے آواز بلند کررہی ہے، لمہ کو تیرا پتہ ہے اور لمہ نے آپ کے ایک پوسٹر بنوا کر اپنے سینے سے لگایا ہے اور ہاں کبھی کبھی آپ کے پوسٹر کو بوسہ بھی دیتی ہے۔
راشد کو لگ رہا تھا میں جھوٹ بول رہا ہوں، یہ باتیں صرف اس کو دلاسہ دینے کے لیے کہہ رہا ہوں، اس لیے راشد نے کہا یار مزاق مت کرو مجھے پتہ ہے آپ جھوٹ بول رہے ہو، تو میں نے کہا قسم سے یار لمہ کے ساتھ ساتھ ماہ زیب بھی ایک پہچان بن چکی ہے، آپکو پتہ ہے لمہ اور ماہ زیب آج کل میڈیا سے باتیں بھی کرتے ہیں، راشد مسکراتے ہوئے بولا یار پھر تو میری تمام پریشانی ختم ہوئی۔ میں لمہ کے لیے پریشان تھا، میں نے کہا وہ اب لاپتہ افراد کے بازیابی کے لیے ایک امید بن چکی ہے، مجھے لمہ پے فخر ہے۔ اچھا راشد ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گیا پتہ آج کل آپ انٹرنیشنل بھی بن چکے ہو، عالمی اداروں میں آپ کا کیس جمع ہوچکا ہے، باہر کے دوست آپ کے لیے وقتاً فوقتاً احتجاجی مظاہرے بھی کرتے رہتے ہیں، یہ سن کرراشد کہنے لگا بس یار دعا کرو دوست ایک ہوجائیں، بلوچ تحریک کامیاب ہو، ہمارا خیر ہے ہماری آنے والے نسلیں عزت، غیرت اور آزادی کے ساتھ جی لیں ہمارا مقصد یہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔