کورونا وائرس اور نئی اخلاقیات کا جنم – ڈیوڈ بروکس

325

کورونا وائرس اور نئی اخلاقیات کا جنم
تحریر: ڈیوڈ بروکس (نیو یارک ٹائمز)

دی بلوچستان پوسٹ

یہ سب کچھ انتہائی بے معنی ہوسکتا ہے، ایک اتفاقیہ حیاتیاتی تبدیلی نے پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس میں ہزاروں انسان لقمہ اجل بن گئے، گھروں کے گھر اجڑ گئے، اور خواب ملیامیٹ ہوگئے، زندگی اور موت اپنی اپنی حد تک مکمل خودمختار ہوسکتی ہیں، فلسفیایہ نظریات کسی سنگدل مذاق میں ڈھل سکتے ہیں، اس وقت ایک ہی بات اہم ہے، اور وہ انسانی بقاء ہے، کوئی اعلی ترین مفہوم پہنائے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت چہار سو ایک خود غرضی چھائی ہوئی ہے، یہ مائنڈ سیٹ وقت کی ضرورت نے تشکیل دیا ہے، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ درست نہیں ہے، ہم اس پر اپنی زندگی کے اہم ترین وقت کے طور پر ایک بار پھر نظر ڈالتے ہیں ۔

وکٹر فرینکل ہولوکاسٹ کے پاگل پن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہے کہ ہمارا اپنے مصائب پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، مگر ہمیں یہ آزادی ضرور ہوتی ہے کہ ہم ان مشکلات میں کیسا ردعمل ظاہر کریں، اس کا کہنا ہے کہ ہمارا رد عمل تین باتوں سے عبارت ہوتا ہے، اول یہ کہ ہم اس مشکل وقت میں کیا کرتے ہیں، دوم یہ کہ ہم کس قسم کی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اور سوم یہ کہ مشکلات کے باوجود ہم کس قسم کا حوصلہ دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مشکل انسانی سطح سے کم تر بھی ہوسکتی ہے، اور انسانی استعداد سے باہر بھی ہوسکتی ہے، مگر ہمارے پاس یہ آپشن ضرور ہوتا ہے کہ ہم آخر لمحے تک اپنے وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں، میں یہاں معنی و مفہوم کے ایک اور سورس کا ذکر کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ ہم مشکل کے اس لمحے کی داستان کو آگے کیسے بیان کرتے ہیں، مصیبت کے اس لمحے کو اس آزمائش سے نجات کے ساتھ جوڑنے کا یہی ایک طریقہ ہے، اس مصیبت سے نکلنے اور زندہ رہنے کا یہی طریقہ ہے، آج کل ایک وباء کی شکل میں ہمیں ایک غیر مرئی مصیبت اور بلا کا سامنا ہے، مگر اسی کے بطن سے ایک بہتر دنیا جنم لے گی، اس وباء نے ہمیں خاص طور پر اس اس جگہ سے نشانہ بنایا ہے، جہاں جہاں سے ہم انتہائی کمزوری کا شکار تھے، اور ہماری ایسی ایسی خامیوں کو آشکار کیا ہے، جن کا ادراک کرنے میں ہم کاہلی کا مظاہرہ کررہے تھے ۔

ہم پہلے ہی ایک منقسم قوم ہیں، اور اس وباء نے ہمیں ایک دوسرے سے مزید فاصلہ رکھنے پر مجبور کردیا ہے، ہم سب اپنا تعارف اپنے اپنے کیرئیر، یعنی پیشے سے کراتے تھے، مگر یہ وباء ان سب کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی، ہم اخلاقی طور پر ایک بے آواز اور ناقابل بیان کلچر کے حامل تھے، اور اب، ہمارے اوپر بنیادی اخلاقی سوالات اٹھ رہے ہیں، کورونا وائرس کی وباء اب ہم سے تقاضا کررہی ہے کہ ہم اپنے ان مسائل کی طرف دھیان دیں، جنہیں ہم ماضی میں نظر انداز کرتے رہے ہیں، اس وباء نے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو بھی بھرپور انداز میں آشکار کردیا ہے، ہمیشہ سماجی اور معاشی کساد بازاری میں ہی ایسی عظیم تنظیمیں جنم لیتی ہیں، جو مستقبل میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں، دنیا میں پہلے ہی ایک نئی انرجی کا ظہور ہورہا، مشکل کی اس گھڑی میں لوگ طویل فاصلوں پر ہونے کے باوجود مل کر گیت گانے اور رقص کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں، ان ویڈیوز کو دیکھ کر مجھے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن کا وہ گیت یاد آرہا ہے، جو انہوں نے بائبل کے Exodus کے باب میں گایا ہے، یہی وہ رقص ہے، جو نور، یعنی روشنی پیدا کرتا ہے، اویوازورن برگ لکھتی ہیں کہ ”خواتین وہ انرجی پیدا کرتی ہیں، جس کی روشنی میں خدا کی موجودگی میں ہم سب برابر شریک ہوتے ہیں۔“

عالمی اقدار میں پہلے ہی ایک تبدیلی آتی نظر آرہی ہے، ہم عالمی سطح پر انسانی رشتوں اور تعلق کو برقرار رکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں، دوطرفہ خوف کے دباﺅ کی وجہ سے یہ تعلقات مزید مضبوط ہوگئے ہیں، اب، ہر کوئی مضبوط رشتوں اور بہتر دیکھ بھال کا متلاشی ہے، دنیا میں ایک نیا عمل بھی وجود میں آتا نظر آرہا ہے، اسی ہفتے ، میں کالج کے تین ہزار طلباء کے ساتھ زوم کال پر تھا، جس کا اہتمام ویریتاس فورم والوں نے کیا تھا، اس وقت سب شرکاء کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گھوم رہا تھا اور یہ وہ یہ تھا کہ ” میں فوری طور پر کیا کرسکتا ہوں ؟“

پھر زوم کال پر ہی میری تیس ایسے لوگوں سے بات ہوئی، جو پارچہ بافی کا کام کرتے تھے، اور ان میں سے ہر ایک نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنے ہمسایوں کی خدمت کے لئے کوئی نہ کوئی نیا کام کرنا شروع کردیا ہے، ایک عورت سبزیوں کے بیج سپلائی کررہی تھی، تاکہ اس کے اردگرد رہنے والی کوئی خواتین اپنے اپنے گارڈن میں سبزیاں کاشت کرسکیں، ایسے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے اپنے گھروں کے فرنٹ پر قائم چھوٹی چھوٹی لائبریریز کو خوراک کے ذخیرہ خانوں مین تبدیل کردیا ہے، کئی لوگوں نے اپنے گھروں پر لائٹس روشن کر رکھی ہیں، تاکہ انہیں دیکھ کر لوگوں کو خوشی اور مسرت کا احساس ہو، میں نے ایک اور نئی بات یہ دیکھی کہ آج کل لوگ بہت زیادہ دوراندیش اور دوربین بھی ہوگئے ہیں، ان دنوں میری جس کسی سے بھی بات چیت ہوئی ہے، وہ بہت ہی دقیق گفتگو کرنے اور بنیادی قسم کے سوالات پوچھنے کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔

کیا آپ مرنے کےلئے تیار ہیں؟ فرض کریں اگر منگل کے دن سے ایک ہفتے کےلئے آپ کے پھیپھڑے کسی مائع سے بھر جائیں تو آپ اب تک جو زندگی گزار چکے ہیں، کیا آپ اس سے مطمئن ہوں گے؟ اگر آپ کا کوئی بہت ہی پیارا عزیز فوت ہوجائے تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ کو یہ معلوم ہے کہ آپ کے سب سے زیادہ قابل بھروسہ روحانی اور قلبی وسائل کہاں ہیں؟

اس وقت ہمیں جس مشکل اور مصیبت کا سامنا ہے آپ اس میں کون سا کردار ادا کرنا پسند کریں گے؟ موقع کی مناسبت سے آپ کے پاس انسانوں کی خدمت کےلئے کون سا مخصوص طریقہ ہے؟ اس وقت جس سب سے بڑی مشکل کا سامنا ہے، وہ یہ کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ہم اپنے اپنے خوف پر کیسے قابو پائیں؟ میں آپ کے بارے میں تو کچھ نہیں جانتا، مگر میں اپنے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اپنے معدے میں ایک خوف محسوس ہورہا ہے، اور جب سے یہ شروع ہوا ہے، ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، مگر رفتہ رفتہ آپ یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ آپ کے پاس اس سے نمٹنے کےلئے بھی اسی طرح کے وسائل موجود ہیں، جن کی مدد سے آپ خوف کے خلاف زبانی اور براہ راست عملی طور پر ایک جنگ لڑتے ہیں، موت کے خوف سے جنم لینے والی انگزائٹی کے درد سے آپ کا ایک نیا وجود جنم لیتا ہے۔

مشکل اور آزمائش ہمارے لیے سکون بخش اور نجات دہندہ بھی بن جاتی ہے۔ ان مشکل لمحات میں ہی ہمیں اپنی ذات کے بارے میں آگہی اور ادراک ملتا ہے۔ ہمیں ایمرجنسی روم میں پڑے سٹریچر کے سرخ اور نیلے رنگ میں اتنا فرق محسوس نہیں ہوتا، مگر ہمیں دنیا میں پائی جانے والی عدم مساوات اس وقت بہت بری لگتی ہے، جب کسی امیر اور غریب میں پایا جانے والا فرق زندگی اور موت کے فرق جیسی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

چنانچہ ہم اس وقت بہت ہی بامعنی لمحات میں سے گزررہے ہیں۔ اور یہی وہ مفہوم ہے جو ہمارے اندر یہ جذبہ بیدار کرے گا اور آنے والے دنوں میں کسی بدترین صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمارے اندر اتحاد اور یگانگت کو مضبوط تر بنائے گا۔

واضح رہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں معانی، روح کے لیے ایک تریاق کا کام کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔