کورونا اور افغانستان
تحریر : مجیب مشال : نیو یارک ٹائمز
دی بلوچستان پوسٹ
جس وقت اس کا آبائی شہر افغانستان میں کورونا کا مرکز بنا اور حکومت نے ملک میں لاک ڈاون شروع کردیا تو ہرات کے اسی سالہ ڈینٹسٹ محمد کریم کو ایک رات یہ خواب آیا کہ اس نے اپنی بیوی سے کچھ رقم لی، تاکہ اسے غریبوں میں بانٹ سکے، مگر حیران کن طور پر اسے سڑکوں پر کوئی ایسا شخص نہ ملا، جسے وہ یہ رقم دے سکے، محمد کریم کہتا کہ ”جب اگلی صبح میں اپنے کلینک پہنچا تو مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی، میں نے اسی صبح یہ فیصلہ کیا میری ملکیت میں جو دس دکانیں ہیں، میں ان کا کرایہ معاف کردوں گا، جو چھ ہزار ڈالر بنتا تھا، کورونا وائرس پورے افغانستان میں پھیل رہا ہے، جبکہ ملک ایک طرف طالبان کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا ہے، اور دوسری طرف متنازع الیکشن ہیں، جس کے نتیجے میں دو حکومتیں قائم ہوگئی ہین، امریکہ نے سزا کے طور پر امداد میں ایک ارب ڈالر کی کمی کردی ہے اور ہماری معیشت نے ملک کی نصف آبادی کو خط غربت سے بھی نیچے پھینک دیا ہے، مشکل کی اس گھڑی میں عامافغانی شہری ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ لے رہا ہے، اور ملک میں سخاوت، رضا کارانہ خدمت اور اپنے ہم وطنوں کا خیال رکھنے کا ایک ایسا کلچر پروان چڑھرہا ہے، جس کے بارے مین بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ کئی عشروں پر محیط جنگ، سب سے پہلے اپنی جان کی بقاء، لالچ اور کرپشن کی وجہ سے اپنا وجود کھو چکا ہے، صحت کے حوالے سے عنقریب پیدا ہونے والے ایک سنگین بحران کا ادراک کرتے ہوئے، اب عام لوگوں میں اس درد کی اذیت کو کم کرنے کیلئے ایک مشترکہ احساس ذمہ داری پروان چڑھ رہا ہے، ایک ایسے ملک میں اب بقاء کی آزمائش کا سامنا ہے، جو کئی عشروں سے باہمی جنگ و جدل میں الجھا ہوا ہے۔
افغانستان کے بہت سے علاقوں میں مالکان نے اس مہلک وباء کے خاتمے تک کرایہ معاف کردیا، ٹیلرز نے ہاتھ سے بنے ہوئے ہزاروں ماسک عوام میں تقسیم کئے ہیں، نوجوانوں کے گروپ اور اتھلیٹس ہسپتالوں اور مشکلات میں گھرے لوگوں میں کھانا تقسیم کررہے ہیں، مقامی ٹی وی سیٹیشن فنڈز ریزنگ کے پروگرام نشر کررہے ہیں، اور اخبارات نے کرایوں میں کمی کی مہم شروع کر رکھی ہے، شادی ہال اور پرائیویٹ سکول رضا کارانہ طور پر ہسپتالوں میں تبدیل کردیئے گئے ہیں، قندوز جسے طالبان نے دو مرتبہ اپنے حملوں سے روند ڈالا تھا اور جہاں شدید لڑائیاں ہوتی رہی ہیں، درجنوں دکاندار اپنی بساط کے مطابق کار خیر میں ڈال رہے ہیں، واش بیسن اور صابن کا بندوبست کررہے ہیں، تاکہ راہگیر اپنے ہاتھ دھو کر جراثیموں سے پاک ہوجائیں، شمالی صوبے تخار کے شہر تالوکان میں چالیس دکانوں پر مشتمل ایک بزنس سنٹر کو لاک ڈاون کردیا گیا تاکہ لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کیا جاسکے، اسی بزنس سنٹر کی چار دکانوں میں ایک چھوٹا سا ریدیو سٹیشن چلانے والے جمشید کندالی کا کہنا ہے کہ جونہی لاک ڈاؤن شروع ہوا تو بزنس سنٹر کے مالک نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں تمام دکانداروں کو بتا دوں کہ میں نے ان کا کرایہ معاف کردیا ہے، مالک نے کہا نہ صرف یہ کہ میں نے ان کا اس ماہ کا کرایہ معاف کردیا ہے، بلکہ اگر کورونا وائرس کا سلسلہ جاری رہا تو مین دسمبر تک ان سے کرایہ نہیں لوں گا، اس سلسلے مین اس نے کسی قسم کا پوچھ گچھ نہیں کی، اس نے کہا میں آپ سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ سب محکمہ صحت کے حکام کی ہدایات کے طابق، اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں، تاکہ ہم سب ایک دوسرے کی انفیکشن سے بچ سکیں۔
ایسے واقعات بھی موجود ہیں، جہاں وسیع پیمانے پر پائی جانے والی غربت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے، چونکہ عوام کی اکثریت اپنے اہل خانہ کی غذائی ضروریات پورا کرنے کیلئے روزنامہ مزدوری پہ انحصار کرتی ہے، جس کی وجہ سے شہروں میں لاک ڈاؤں اور مارکیٹس کی بندش سے انہیں بھوک سے مرنے کا خوف پیدا ہوچکا ہے، کورونا وائرسکے بحران میں بہترین مقامی لیڈر شپ سامنے آئی ہے، جہاں صوبائی لیڈرز ابھی تک جنگ لڑنے میں الجھے ہوئے ہیں، مقامی حکام نے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف نئے کریک ڈاؤن کیلئے بہت تیزی سے کارروائی کی، انہوں نے فوری طور پر قرنطینہ قائم کئے اور انتہائی کم وسائل کے باوجود متاثرین کو صحت کی ضروری سہولتیں فراہم کی گئی، مشرقی صوبہ ننگرہار کے گورنر شاہ محمد میاں خیل نے ایک ایمرجنسی کووڈ انیس فنڈقائم کیا،جس میں صرف ایک دن میں ایک لاکھ ڈالرز کے عطیات موصول ہوئے، ایک طرف قرنطینہ اور لیب کی سہولتوں کی تیاری نہ ہوسکی تو دوسری جانب گورنر میاں خیل کی طرح مقامی رہنماؤں کو بیامری سے متعلق افواہیں اور توہمات پھیلانے والوں کے خلاف بھی جنگ لڑنا پڑی، مثلاََ آدھی رات کے وقت بلیک چائے کے دوکپ پینے سے کورونا وائرس نہیں ہوگا، کہا نی کے مطابق، یہ علاج اس نوزائیدہ بچے کی زبان سے معلوم ہوا، جو پیدائش کے صرف چند منٹ بعد فوت ہوگیا تھا، مگر معجزاتی طور پر وہ جاتے جاتے یہ علاج بتا گیا، اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر گورنر نے بتایا کہ ”کورونا کا علاج بلیک چائے میں نہیں ہے، اس کا واحد حل ہجوم میں جانے سے گریز اور سماجی فاصلے برقرار رکھنا ہے، شمالی صوبے فاریاب کے گورنر نقیب اللہ فائق نے بتایا کہ بہت سے ایسے لوگ جن میں کورونا وائرس کی موجودگی کا شبہ تھا، ہسپتال جانے سے انکاری ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی خاندان والوں کی زندگیوں کا سارا دار و مدار ان پر ہے، چنانچہ میں نے ان کی یہ مزاحمت ختم کرنے کیلئے ان کے خاندان والوں کو خوراک کے پیکیج دینے کا اعلان کیا ہے، گورنر فائق نے بتایا کہ میں نے ایک پچاس سالہ شخص کو جس میں کورونا وائرس کا شبہ تھا زبردستی ہسپتال بھجوایا، وہ دو مرتبہ ایمبولینس سے اور ایک مرتبہ پولیس کی حراست سے فرار ہوگیا، جب گورنر فائق نے اس کے گھر کا دورہ کیا تو اس کی ماں نے بتایا کہ اس کا صرف یہی بیٹا کام کرکے گھر کا خرچ چلاتا ہے، چنانچہ ہم نے اسے ایک بوری آٹا، ایک بوری، چاول، دو کلو چینی اور پانچ کلو دالیں دیں تو اس کی ماں بہت خوش ہوگئی تو وہ شخص ہنسی خوشی ہسپتال کے قرنطینہ میں جانے پر راضی ہوگیا۔
جنوبی صوبے قندھار کے محمد یونس نامی درزی نے بتایا کہ میں نے اپنی دکان کو ایک ماسک فیکٹری بنا دیا ہے،تاکہ غریبوں کو بھی ماسک مہیا کئے جاسکیں، اس نے بتایا یہ مہلک وائرس ہمیں روز خوفزدہ کرتا ہے، میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کیلئے ماسک خریدنے کیلئے باہر گیا تو یہ مجھے میڈیکل سٹورز سے جاکر ملے، ان کی قیمت بہت زیادہ تھی، اور قندھار کے غریب لوگ یہ ماسک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، ہرات کے ڈینٹسٹ محمد کریم نے بتایا کہ میں اپنی زندگی میں کئی جنگیں اور قحط دیکھ چکا ہوں، مگر پرانی وباؤں اور بحرانوں کے مقابلے میں افغانستان نے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے اس مرتبہ بہتر تیاری کررکھی ہے، اگر عوام کی اکثریت غریب بھی ہے تو اس وقت ملک کے پاس اتنی دولت ہے کہ اگر لوگ اسے تقسیم کریں تو ہر شہری کو مناسب رقم مل جائے گی، مجھے یاد ہے کہ لوگ اپنی بیٹیاں فروخت کرنے کیلئے مالن پل پر آگئے تھے، تاکہ اپنے بچوں کے کھانے کا بندوبست کر سکیں، مگر اب میں اتنا خوفزدہ نہیں ہوں، اگر ہم متحد ہوکر تعاون کریں تو انشاء اللہ کورونا کا عذاب بھی گزر جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔