کوئٹہ: لاپتہ افراد کے لیے احتجاجی کیمپ دوبارہ قائم

150

کرونا وائرس کے باعث وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اپنا احتجاج دو دفعہ موخر کرنے کے بعد آج دوبارہ احتجاجی کیمپ قائم کردی۔

وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ ہم نے کرونا وائرس کے باعث حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنا احتجاج موخر کردیا تھا لیکن وبا کے دنوں میں جبری گمشدگیوں میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ فورسز کی جانب سے مختلف علاقوں میں آپریشنوں میں تیزی لائی جاچکی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر بلوچستان بلوچ سیاست کا جائزہ لیا جائے تو بلوچ طلبا کا کردار نمایاں نظر آئے گا خاص کر ستر کے عشرے میں جب بلوچ علاقے بمباری سے لرز اٹھے تو طلبا تنظیم بی ایس او نے فطری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے متحرک ہوئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں طلبا پر ظلم ہوتے رہے ہیں جیسے کہ جنوبی افریقہ میں ساٹھ کی دہائی میں سینکڑوں ہڑتالی بچوں کو سفید فام سپاہیوں نے گولیوں کی بوچھاڑ سے ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ فرانس میں جنرل ڈیگال کے وقت طلبا کے جلسہ جلوسوں کو پرتشدد طریقے سے منتشر کرنے کی کوشش میں کئی طالب علم اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں بلوچ قوم کے طلبا کو جس جبر کا سامنا ہے وہ کئی عشروں سے جاری ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دنیا بھر میں اتنے عرصے کسی پر ظلم نہیں ہوئی ہے جس طرح اس تنظیم کے کارکنان کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔

دریں اثنا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ اور وائس چیرمین قدیر بلوچ نے لاپتہ زاھد بلوچ و لاپتہ عمران گرگناڑی کے والد اور لاپتہ جان محمد کرد کی والدہ کے وفات پر خاندان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ لاپتہ افراد کے بیشتر والدین اپنے لاپتہ پیاروں کے جدائی کا غم دل میں لے کر اس دار فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاست اور ریاستی اداروں کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی قوانین کی پاسداری کریں تاکہ شہریوں کا اعتماد بحال ہو عوام اپنے آپ کو ملک میں محفوظ سمجھے اور ریاست لاپتہ افراد کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیکھے کیونکہ جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے شخص کا پورا خاندان ہوتا ہے، گھر کے فرد کے لاپتہ ہونے کی وجہ سے پورا خاندان ذہنی اذیت سمیت بہت سے مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ ملکی سالمیت کے نام پر شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا اور ان کے حوالے سے ان کے خاندانوں کو معلومات فراہم نہ کرنا ملکی و بین الااقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر ریاست سے اپیل کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو ملکی قوانین کے مطابق حل کریں اور اگر لاپتہ افراد پر کوئی الزام ہے تو ملکی قوانین کے تحت انہیں عدالت میں پیش کرکے ان کا صاف شفاف ٹرائل کیا جائے تاکہ لاپتہ افراد کے خاندان جو اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کی وجہ سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں انہیں نجات مل سکیں۔