بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3942 دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ بلوچوں کا تعلق جمہوری، سیاسی، صحافتی، انسانی حقوق اور سماجی حلقوں سے ہیں، یہ سب لاپتہ افراد قومی حقوق کے لیے پرامن اور جمہوری انداز میں آواز بلند کررہے تھے لیکن ریاستی جبر کے ذریعے انہیں بھی تخریب کار اور غدار قرار دیتے ہوئے راستے سے ہٹایا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پاکستانی بالادست قوتوں کی متعارف کردہ جمہوریت بلوچ قومی حقوق کے تحفظ اور حصول سے دستبردار ہوکر نوآبادیاتی حیثیت کو قبول کرنے کے مداری نما جلسے جلوسوں اور سیاسی کھیل تماشوں تک ہی محدود ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ طویل بھوک ہڑتالی کیمپ سے بلوچ قومی سوال ایک سلگتے ہوئے مسئلے کے طور پر دنیا کے سامنے اجاگر ہوا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا ہے کہ بلوچ قوم کو ریاستی قوتوں کے ہاتھوں نسل کشی جیسے سنگین جرائم کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان انسانی المیوں کی آماجگا بن گیا ہے جہاں لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور اجتماعی قبروں کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ جس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو جبری طور پر غائب اور ان کی کھلی اور خفیہ ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے تمام ریاستی اداروں اور سیاسی، صحافتی اور سماجی حلقوں سے ملنے والی گہری مایوسی کے باعث یہ امر مزید واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ نوآبادیاتی، سیاسی، معاشی نظام اور ریاستی ڈھانچے میں بلوچ قوم اپنے حقوق اور زندگی کے حوالے سے محفوظ نہیں ہے۔