کرہ ارض خود ایک چڑیا گھر – نادر بلوچ

475

کرہ ارض خود ایک چڑیا گھر

تحریر : نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

 

چڑیا گھر بچپن میں سب نے دیکھا ہے۔ شاہد آج بھی بچوں کیلئے سب سے محبوب سیر چڑیا گھر کی ہوتی ہے۔ جس میں انواع و اقسام کے مختلف نسلوں کے جانور اپنے مصنوعی گھروں میں مقید ہوتے ہیں۔ جانور ایک دوسرے سے باتیں بھی کرتے ہیں طرح طرح کی آوازیں سنتے ہیں لیکن انکی آوازوں کو سمجھتے نہیں بلکہ سن کر بڑے محظوظ ہوتے ہیں۔ سلاخوں کے پیچھے شیر ، ریچھ، بندر ، بڑی بڑی زنجیروں میں جکڑی ہاتھی، طوطے، شتر مرغ ان سب کو دیکھ کر انسان اور انسان کے بچے خوش ہوکر دن بھر ان جانوروں کے ساتھ کھیل تماشے کرتے ہیں، کچھ نرم دل انکے لیے خوراک بھی ساتھ لے آتے ہیں اور کچھ پتھروں سے ان حیوانوں سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتے ہیں۔ جانوروں کے یہ قید خانے ہر ملک میں موجود ہیں۔ انسان کو کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ کھبی خود بھی ان جانوروں کی طرح کسی بڑے چڑیا گھر میں خود بھی مقید ہوسکتے ہیں، کھبی کوئی انکو زبردستی گھر پر رہنے کیلئے مجبور کرے گا۔ آج کرونا نے انسانوں کیلئے کرہ ارض کو ایک چڑیا گھر میں تبدیل کردیا ہے۔ انسان خود آج قید تنہائی کا شکار ہوچکا ہے۔

انسان خود بھی تو ایک سماجی جانور ہے اسکی نفسیات اور جانوروں کی نفسیات ایک جیسی نہیں تو ملتی جلتی ہونگی، جیسے خوشی اور غم کا احساس، بھوک کی تڑپ، تنہائی کا غم ، درد کی تکلیف، قید ہونے پر چڑھ چڑھا پن کا شکار ہونا، گھر پر زیادہ رہنے کی وجہ سے بھوک کا ختم ہونا، یہ سب ایک جیسی علامات ہی تو ہیں۔ انسان نے ہزاروں صدیاں پہلے جانوروں کو کھیتی باڑی کی غرض سے سدہانا شروع کی، جنگوں میں جانوروں کا استعمال کیا جانے لگا، اور پھر جانور مکمل انسانوں کی گرفت میں آتے گئے یہاں تک کے چڑیا گھر کے نام پر آج ہزاروں قید خانے دنیا کے ہر مہذب ہونے کے دعوے دار ملک میں موجود ہیں۔

امپیریل ازم اور کیپیٹل ازم نے انسانوں کو مشین کا ایساء پرزا بنایا دیا ہے کہ انسان چوبیس گھنٹوں میں ایک گرفتار قیدی سے بھی بدترین زندگی گزار رہا ہے۔ اس جال کا پردہ فاش کرنے کا سہراء کرونا وائرس کو جاتا ہے، جس نے سرمایہ داروں کی انسانیت کی خدمت کے دعوے کا پول کھول دیا ہے۔ یہ احساس انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکنوں کو ضرور ہوا ہوگا کہ کیپیٹل ازم کے دور میں ایک انسان کو دوسرے مجبور و مظلوم انسانوں و اقوام کیلئے آواز اٹھانے کیلیے تیار کرنا کتنا مشکل ہے۔ صبح سے شام تک ایک فرد سرمایہ داروں کو اپنی خدمات ماہانہ وار تنخواہ پر بیچتی ہے شام کو گھر واپس لوٹ کر پیزا ہٹ اور کے ایف سی کے برگر کو من سلویٰ سمجھ کر پیٹ کی آگ کو بجھانے پر فخر کرتے ہوئے نیٹ فلیکس پر ایک جادوئی سیریز دیکھ کر اوندھے منہ سو جاتا ہے اور صبح پھر اسی ان دیکھی غلامی کے چکر کو شروع کرتا ہے۔

جدید دنیا میں آرٹی فیشل انٹیلیجنس کے نام پر روبورٹس کی تیاری پر انتہائی بڑے پیمانے پر کام شروع ہے جسکی تیاری کیلئے بڑے بڑے سرمایہ دار اربوں ڈالر کے فنڈز مختص کرچکے ہیں۔ ان روبوٹس کا مقصد افرادی قوت کم کرکے روبوٹس کو انسانی غلامانہ ذمہ داریاں دینا ہے۔ کیوںکہ روبوٹس کو اضافی تنخواہ نہیں چاہیے ہوتی، روبوٹس نہ kfc کے برگر کھاتے ہیں نہ Pizza Hut کے پیزا کھانے پر انکو فخر ہوتی ہے۔ نہ Netflix کے سیریز انکا ضمیر دبا سکتے ہیں۔ کرہ ارض پر انسان کی بڑھتی ہوئی آبادیاں اور سرمایہ کارانہ نظام انسانیت کی تبائی کی جانب بڑھتی جارہی ہے۔ روبوٹس کا دنیا میں آنا انسانوں کیلئے کرونا سے بھی خطرناک ہوگی کیوں کہ جب انسان میں مزاحمت ختم ہوگی تو وہ خود کو بچا نہیں پائے گی۔ انفرادیت و دنیاء کے دیگر انسانوں کا درد محسوس نہ کرنے والے خودکشیوں اور امراض سے خود کو تباہ کرتے رہیں گے۔

تنہائی مختصر وقت کیلیے انسان کو سوچنے کا وقت فراہم کرتا ہے۔ اس وقت کو اپنی اصلاح و تربیت کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے۔ دوسروں کے درد کا حصہ نہ بنیں لیکن اس درد کو محسوس تو کریں آج ہزاروں افراد کوئی جرم کیئے بغیر جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں انکا قصور کچھ نہیں سوائے دوسرے انسانوں کیلیے آواز اٹھانے کے وہ کسی کے مجرم نہیں وہ اس سسٹم کے باغی ہیں، جس نے انسانیت کو اذیت میں مبتلا کیا ہے، وہ الگ نہیں ہیں وہ ہر ایک انسان کے سگے ہیں، ان ضمیر کے قیدیوں کیلیے آواز بلند کریں۔ لاپتہ افراد کو اس ظالم سسٹم سے بازیاب کرنے کیلئے انسانی غلامی کے خلاف شعور و آگائی کی تحریک کا مستقل حصہ بن کر انسان ہونے کا فرض ادا کیا جاسکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔