کرونا
تحریر: احمد علی کورار
دی بلوچستان پوسٹ
بابوں کے نسخے کام نہیں آتے، حکیموں کے کشتے کام نہیں آتے ، چھپر کے باسی ہوں یا قصر کے قیصر ، پیرہو یا مرید اہلِ تصرف بھی اس کے تصرف سے نہیں بچ سکتے۔ اس عام فرمانِ قضا میں کسی کو کچھ استثنیٰ اور امتیاز نہیں۔ کم بخت 206 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔50 ہزار جانیں نگل لیں۔ جن میں 30 ہزار کا تعلق یورپ سے ہے۔ ان گنت اموات کا ذکر اعصاب شل کر دیتا ہے۔ شاذ ہی کوئی ملک اس سے مستثنیٰ ہو۔ ووہان سے نمودار ہونے والے معمولی سے وائرس نے رنگین دنیا کو ادھرنگی بنا دیا ۔ معیشت، تجارت، صنعت وحرفت، تعلیم، سماجی میل جول سب پر آسیب کا سایہ پڑ گیا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاک ڈاون کے تحت سخت اقدامات، پابندیوں اور احتیاطی تدابیر کے باوجود وبا کے پھیلاو میں کمی نہیں آرہی ہے۔ نسبتًا پاکستان میں صورتحال اتنی گھمبیر نہیں ہے۔ پھر بھی ڈھائی ہزار مریضوں میں تشخیص کی گئی ہے اور 31 کی اموات ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ نے غریب ممالک کے لیے عالمی فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے شبہ غالب ہے وبا کی وجہ سے معیشت پر کثیر المدتی اثرات مرتب ہو ں۔ بے یقینی کی اس کیفیت کے پیش نظر ملک میں مزید دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاون نافذ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے اگر احتیاط نہ کی گئی خدشہ ہے50ہزار لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس وبا سے محفوظ رہنا ہے تو گھروں میں رہنا ہے۔عالمی سطح پر کورونا وائرس کی پیش قدمی ہولناک بتائی جاتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امریکیوں کو آنے والی ہول ناکیوں سے خبردار کیا ہے امریکا میں ماسک کم پڑ جانے کی وجہ سے صدر نے خواتین کو اسکارف پہننے کا مشورہ دیا ہے امریکا میں ہلاکتوں نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کرونا کسی ملک مسلک مذہب سے تعلق نہیں رکھتا بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب متحد ہوکر اس وبا سے لڑنا ہے۔
کرونا نے ایک اعصابی جنگ اور جبر کی ملی جلی کیفیت میں دنیا کو ڈال دیا ہے۔ لیکن اس سے نمٹنے کےلیے صرف لاک ڈاون پر اکتفاء اس صورت ممکن ہے جب حکومت غریب طبقے کا روزی روٹی کا سامان کر سکے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستان میں لاک ڈاون سے غریب طبقہ بہت متاثر ہوا ہے۔ گھر گھر فاقے ہو رہے ہیں، حکومت عوام کو فوری ریلیف اور امداد کے وعدے پورے کرے۔ سماجی و فلاحی تنظیمیں اور مخیر حضرات کو بھی بھر پور تعاون کرنا چاہیے۔ اس مشکل گھڑی میں یہ نادار طبقہ امداد کا منتظر ہے۔ اب تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے رلیف پیکج کا کوئی اتا پتا نہیں، اس وقت ریلیف کی فوری فراہمی اشد ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین ٹا ئیگر فورس کے موزوں نام پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ انسانی المیہ غربت اور بے روزگاری کا مقابلہ سیاسی اور جمہوری بالغ نظری، اشتراک و تعاون سے ہی ممکن ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسی بالغ نظری کا بڑے پیمانےپر فقدان ہے۔ اگر اب بھی یہ دراڑیں موجود رہیں اور ٹائیگرز پہ کج بحثی جاری رہی بھوک ٹائیگر بن کر غریبوں کو مارے گی پھر غریب کرونا سے نہیں بھوک سے مریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔