کرونا، لاک ڈاؤن اور بلوچستان کے عوام – عاطف رودینی

280

کرونا، لاک ڈاؤن اور بلوچستان کے عوام

تحریر: عاطف رودینی

دی بلوچستان پوسٹ

صوبہ بلوچستان پاکستان کے 44 فیصد رقبے پر مشتمل ہے، جسے آدھا پاکستان تصور کیا جاتا ہے. مگر بلوچستان کا تقریباً 80 فیصد سے زیادہ حصہ دیہات پر مشتمل ہے دیکھا جائے 60 سے 70 فیصد لوگ دیہی زندگی گذار رہے ہیں، شہر کے نسبت دیہی علاقوں میں رہنے والے شہر کے لوگوں سے علمی، فنی، شعوری اور دیگر حوالے سے کافی پیچھے ہوتے ہیں۔ بلوچستان جوکہ ایک بہت پسماندہ صوبہ ہے غربت اور بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے، تعلیم شاید اس صوبے میں نہ ہونے کے برابر ہے آئے روز حکومت کے تعلیمی پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت خود نہیں چاہتی کہ یہاں کہ لوگ تعلیم حاصل کریں شعور یافتہ بن جائیں جسکا اندازہ جامعہ بلوچستان سکینڈل کو دبانے اور بی ایم سی کے ایکٹ میں ترمیم سے لگایا جاسکتا ہے۔

تقریباً پوری دنیا اس وقت کرونا کی لپیٹ میں ہیں۔ لاکھوں لوگ اس وائرس کا شکار ہو گئے ہیں، ہزاروں لوگ اس وائرس کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ہر کوئی اس پر کنٹرول حاصل کرنے کیلیے اپنا پالیسی ظاہر کر رہا ہے۔ کچھ دن پہلے صوبائی حکومت نے کرونا وائرس کے پھیلنے سے روکنے کیلیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور عمل درآمد کیلئے دفعہ 144 بھی نافد کیا. شہر سمیت دیہی علاقوں میں بھی چھوٹے بڑے بازار بند کر دیے گئے اس وقت ماسوائے زائرین کے ہر عام خاص کیلئے دارالحکومت کوئٹہ کے داخلی اور خارجی راستے بند ہے۔ دنیا بھر کے سائسندان اور ڈاکٹرز اس وائرس کے روکنے کیلئے دن رات محنت کر رہے ہیں، عوام سے حکمرانوں تک اس وائرس سے پریشان ہیں، سب کے دلوں میں اسکا خوف بیٹھا ہے کوئی اس کی احتیاطی تدابیر اختیار کر رہا کوئی اس کا علاج ڈھونڈنے کیلئے محنت کر رہا ہے تو کوئی اس سے بچنے کیلئے گھروں میں حفاظت کیلئے بیٹھا ہے۔

مگر بلوچستان کے خاص کر دیہی علاقوں میں حالات بہت مختلف نظر آرہے ہیں. یہاں کی عوام موت کو بر حق اور لاشیں اٹھانے کو اپنا تقدیر سمجھتے ہیں. ان کو ایک بہت بڑی پریشانی اور درد نے گھیر لیا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ پریشانی کرونا جیسے خطرناک بیماری کے وجہ سے نہیں ہے، اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک کرونا کا مانا جا رہا کہ مگر کرونا کا خوف ان کے دل میں اس طرح نظر نہیں آتا، جس طرح دیگر لوگوں کے دلوں میں ہیں۔ شاہد کرونا کو اپنا تقدیر سمجھ کر ٹال رہے ہیں یا پھر کرونا کے پریشانی اس بڑے پریشانی کے سامنے چھوٹی ہے اس لیے خاص توجہ نہیں اس پر۔ جس طرح غذائی قلت سے اموات طاعون ہیپاٹائٹس کینسر جیسے مرض سے اموات آلودہ پانی سے بیماریاں سے اموات مسخ شدہ لاشیں اور قاتل شاہراہوں میں حادثات سے اموات میں لاشیں اٹھانا ان کے تقدیر کا حصہ ہے۔ شاید بد قسمتی سے کرونا سے بھی ہونے والے اموات سے لاشیں اٹھانا انکے تقدیر کا حصہ بننے والا ہے۔ جس پریشانی نے انہیں گھیر رکھا ہے وہ پریشانی بھوک اور مفلسی ہے کرونا کے وجہ سے صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن ہے جس کے وجہ سے ہزاروں افراد کی روزی روٹی بند ہو گئی، دیہاڑی دار مزدوروں کا کئی دنوں سے گھر کے چھولے تک نہیں جلے، کرونا سے پہلے ان کے بچے بھوک سے نہ مر جائے یہ پریشانی بھی انکی موت کا سبب نہ بن جائے۔

یہاں پر حکومت کے فیصلے اور پالیسیوں کو دیکھا جائے تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ حکومت کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں وزیر اعظم مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں اس لیے نہیں کیونکہ ان کے مطابق ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ گھر گھر راشن پہنچا سکے اور انہوں نے گڈز ٹرانسپورٹ کو بھی اس لیے کھول دیا تاکہ ملک کی معیشت کمزور نہ جناب وزیر اعظم صاحب کو معیشت کا بہت خیال ہے مگر عوام کا نہیں. صوبائی حکومت بھی سوشل میڈیا پر دعوؤں تک محدود ہے زائرین کی پروٹوکول اور خیمہ بستی میں کروڑوں روپے اڑائے گئے، خیمہ بستی سے فائدے کے بجائے پورا ملک خطرے میں پڑ گیا جس کے اثرات یہ ہے کہ کرونا کے روزانہ کئی کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ جن کی اکثریت زائرین اور ان لوگوں کی ہے جنکا واستہ زائرین کے ساتھ ہوا ہے. معیشت اور دعوؤں و فوٹو سیشن کی جنگ میں نقصان غریب کو اٹھانا پڑ رہا ہے بیرونی فنڈنگ کی راہ دیکھتی حکومت کو تیزی سے پھیلتی ہوئی مفلسی نظر نہیں آ رہی. مفلسی کی وار اور بھوک کی تڑپ کہی کئی غریب عوام کو غلط قدم اٹھانے پر مجبور نہ کردے کیونکہ بھوک کچھ بھی کروا سکتی ہے حکومت ان حالات میں صحیح فیصلہ نہیں لے پا رہا جب مجبور عوام کی برداشت کی سکت ٹوٹ گئی پھر حکومت کو آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنا نا ممکن ہوگا جسکا پھر بھی حکومت کے ساتھ عوام کو بھی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور نقصان پورے ملک کا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔