راشد حسین کے اہل خانہ کے مطابق اسے متحدہ عرب امارات سے 26 دسمبر 2018 کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا ۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کی انسداد دہشتگردی کی ایک خصوصی عدالت نے 2018 کو کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر حملے کے مقدمے کی سماعت میں متحدہ عرب امارات سے 26 دسمبر 2018 کو گرفتاری کے بعد 22 جون 2019 کو پاکستان کے حوالے کرنے والے راشد حسین کی وارنٹ گرفتاری جاری کردی ہے ۔
کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت میں مقدمے کی سماعت ہوئی ، عدالت نے مقدمے میں لاپتہ راشد حسین کو مفرور قرار دے دیا اور ساتھ ہی دیگر چند لوگوں کو جن میں علی داد بلیدی، شریف بلوچ، سمیر اور حیربیار شامل ہے ۔
مقدمے میں دوران سماعت پولیس نے کہا کہ کراچی میں چینی قونصل خانے کے حملے میں احمد حسنین، نادرخان، علی احمد، عبدالطیف اور اسلم گرفتار ہیں ۔
عدالتی بیان کے مطابق عبدالطیف سمیت دو افراد نے حملے میں ملوث ہونے کا اقرار بھی کیا ۔
خیال رہے پاکستان میں پولیس کی جانب سے اکثر اوقات بے گناہ لوگوں کو خانہ پری کی خاطر گرفتار کرکے ان پر شدید تشدد کے بعد اقراری بیان لیکر عدالتوں میں جمع کیا جاتا ہے اور کمزور عدالتی نظام کے سبب ان ہی زبردستی والے بیانات کی بنیاد پہ بے گناہ لوگوں کو قید کی سزا دی جاتی ہے ۔
دوسری جانب عدالت نے جس لاپتہ نوجوان کو مفرور قرار دے کر اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کی ہے اس کے اہل خانہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے کوئٹہ و کراچی میں راشد حسین کی بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہرے اور علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگا چکے ہیں ، جبکہ یورپ کے مختلف ممالک میں راشد حسین کی بازیابی کے لئے متحدہ عرب امارات کے سفارت خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے بھی کئے جاچکے ہیں ۔