پیوستہ رہ شجر سے – اقبال بلوچ

981

پیوستہ رہ شجر سے

تحریر: اقبال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی معلوم تاریخ سے لیکر آج تک یا یوں کہہ لیں بلوچوں کی بام عروج یعنی سترہویں صدی کے تیسرے چوتھائی سے آگے چل کر آج تک بلوچستان کا المیہ دستار اور اس کیلئے موزوں سر کا ہونا یا نہ ہونا رہا ہے۔ ہندوستان کے مغلوں کی طرز پر ہمارے اجداد بھی دستار چھینتے اور اپنوں کے سرکاٹتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ کسی بھی حوالے سے دیکھ لیں یہاں کا مسئلہ “میں” رہا ہے۔ ہم لوگ “ہم” تک کب پہنچیں گے معلوم نہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قبائلی “بغض”٫ “انا”، “خودپسندی”، “نرگسیت”، “خوشامد” اور ان جیسے دسیوں نفسیاتی بیماریاں ہمارے اجداد سے سینہ بہ سینہ ہم تک منتقل ہوتی آئی ہے۔

قبائلی دور سے لیکر سوویت یونین کے انہدام تک اور 2001 کے بعد بننے والے نئے ورلڈ آرڈر تک میں بلوچ خود کو کہیں اسلیے فٹ نہیں کرپایا کہ یہاں سر ہزار و دستار یک والا قصہ ہے۔

برادر کشی کو رند و لاشار سے لیا جائے، یا نوری کی مکران پر چھڑائی سے، میروانی سے ہوتے ہوئے احمدزئی سے یاپھر حالیہ ادوار میں رئیسانی رند یا لہڑی لانگو سے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہی برسوں سے بساط بچھائی اور لپیٹی جاتی رہی ہے۔ اس دستار کے حصول کیلئے اکابرین دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے اور اپنوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے بھی نہیں کترائے۔ سروں کو دھڑوں سے اتھارا گیا۔ اپنوں کو مصلوب کیا گیا۔ غیروں کو گود میں بٹھایا گیا۔ اپنوں کو دھتکارا گیا۔ کیا مرید؟ کیا چاکر؟ کیا گہرام؟ کیا لاشار؟ کیا بگٹی؟ کیا مری؟ کیا ڈومکی؟ کیا مگسی؟ کیا بنگلزئی؟ کیا شاہوانی؟ کیا محمد حسنی؟ کیا میروانی؟کیا زہری کیا مینگل؟ سب ہی اپنے ہمزادوں کے قاتل نظر آتے ہیں۔ الغرض آج بھی جنگ اسی دستار اور برادر کشی پر جاری ہے۔

اس جنگ میں ہمارے انقلابی سپاہ بھی کسی سے مگر پیچھے کیسے رہتے؟ انکی صفوں میں آج بھی دستار کیلیے سرد جنگ کسی نہ کسی صورت جاری ہے؟ یہ اور بات کہ اس چھینا جپٹی میں کیسے کیسے ہیرے قربان ہو گئے؟

المیہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں ہوتے ہوئے بھی ہم قرون وسطیٰ کے لوگوں کی عادات و خصلتیں لیے اپنے اوپر فخر محسوس کرتے ہیں۔

اس چھینا جھپٹی سے ہمارے لکھاری شاعر و دانشور بھی کسی طرح محفوظ نہیں رہے۔ کیا افلاطون کیا ارسطو سارے بقراط تو جیسے یہیں اپنے مہرگڑھ سے نکلے ہیں۔ لکھے پڑھے اتنے کہ ہاکنگ بھی دنگ رہ جائے اور جہل اتنا کہ ہر دوسرے جملے میں اپنی ہی بات سے منکر ہوجائیں۔ کلیئر اتنے کہ ان کے نظریاتی اساس پر جی جان قربان کرنے کو دل کرے۔ اور کنفیوژڈ اتنے کہ مستقبل کی پیش بینی سے قاصر، گمان گزرے کہ گھر کا رستہ ہی نہ بھول بیٹھیں۔

عہدوں، ممبرشپ، نام و نمود کے ایسی بھوک یہاں دیکھی شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں مل پائے۔ چشمِ فلک نے وہ دن بھی دیکھا کہ پارٹی کی پارٹی کابینہ کے رکن منتخب ہوئے، دیوان کا دیوان ادبی انجمنوں میں عہدیدار ٹہرا، اور اگر کچھ نہ بچے تو اعزازی عہدے ہی دے دیے گئے۔ ان انکھوں نے ایسے مشاعرے بھی دیکھے جن میں سٹیج پر ڈیڑھ درجن کے قریب لوگ بٹھائے ملے پوچھا یہ کیوں تو جواب آیا “یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی”۔ واقعتاً آخر میں بس وہی دیپ پڑپڑاتے ملے اور باقی مسکراتی خالی نشستیں۔

کبھی سوچتا ہوں ہم دنیا کی دوڑ سے تو کب کے باہر ہوگئے ہیں۔ خطے کی دوڑ میں ہمارا اشتراک بھی نہ ہونے کے برابر ٹہرا ۔ بقاء کے نام پر شروع ہونے والی جنگ سمٹ کر کچھ یاروں کی دستار کی جنگ رہ گئی ہے۔ صوبائیت کی بات کرنا ویسے بھی یہاں شجر ممنوعہ ہے۔ سیاسی جماعتیں رہی نہیں۔ انجمنیں لپیٹ لی گئیں۔ ادباء کھسر پسر میں باتیں کرتے ہیں۔ صحافی ڈرے ہوئے ہیں۔ تو اس قوم کے نجات کا کوئی رستہ ہے بھی کہ نہیں۔ یا پھر ماضی کی طرح بس ہوا کے دوش پر چلتی اس ناؤ کی طرح جسکا ناخدا تک ہار کر بیٹھ گیا ہے اور اب اسے ہوا کسی بھی سمت لیجائے تو لیجائے، ناخدا بے بس معجزوں کا منتظر۔

سردست بلوچستان کی پارلیمانی جماعتوں میں نیشنل پارٹی اپنی زخموں کو لیے اپنی سیاسی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ جبکہ بی این پی اپنی پی ایس ڈی پی سکیموں کی منظوری کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ شنید ہے کہ وہ اس مقصد کیلئے کسی حد تک بھی جانے کیلیے تیار ہیں۔ حکومتیوں اور مذہبی جماعتوں سے ایمان ویسے بھی اٹھ چکا ہے۔

لے دے کر غیر سیاسی انجمنیں اور طلباء تنظیمیں رہ جاتی ہیں۔ طلباء تنظیموں پر پابندی کی وجہ سے اس محاذ سے بھی کوئی حوصلہ افزا خبریں نہیں آتیں۔ یوں بھی طلباء تنظیموں کو ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش غیر پارلیمانیوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ سب سے زیادہ پٹے بھی یہی طلباء ہیں۔ اب بھی سب سے زیادہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی اکثریت طلباء ہی ہیں۔ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں آج تک طلباء سیاست قوم کی امیدوں کا واحد مرکز چلا آرہا ہے۔ ایسے میں کس سے منصفی چاہیں کسے راہنما کرے کوئی؟

دل ہے کہ مانتا نہیں۔ اپنی ضد ہے کہ بلوچستان کو ایک ایسی سیاسی جماعت کی اشد ضرورت ہے۔ جو ماضی کی پارلیمانی و غیر پارلیمانی آلائشوں سے پاک ہو۔ جسکے اپنے اصول ہوں۔ جسکا اپنا منشور ہو۔ جو سیاسی ڈکٹیشن اور ادیبوں دانشوروں کا محتاج نہ ہو۔ جو سیاست کو سیاست سمجھتا ہو۔ جو علمی ہو، جو شعوری بنیادوں پر چیزوں کو پرکھنا جانتا ہو۔ جسکا علم آخری نقطہ نہ ہو۔ جو دستار، چئیرمین شپ عہدے، چندے، اور مالی و سیاسی مفادات سے پاک ہو۔ جو سر کی قدر جانتے ہوں۔ جنہیں دستار کی بھوک ہلکان نہ کرتی ہو۔

یہ ایک دیوانے کا خواب ہے جو شاید جیتے جی پوری بھی نہ ہوسکے۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔