وطن کے پانچ ستارے
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں کون ہوں؟ میری تشخص کیا ہے، میری شناخت کیا ہے، میری سماج کیا ہے؟ اس سماج میں کیا ہو رہا ہے؟ خوشحالی کا پیمانہ کیا ہے؟ بدحالی کا کیا تصور ہے۔ اس بدحالی و مفلسی کا ذمہ دار کون ہے؟ میں ؟ میرے باپ دادا؟ یا یہ ریاست جس کے سائے میں ہم پل رہے ہیں؟ خود کیا ہے، خودی کیا ہے؟ خوشی کونسی ہے اور غم کیا ہے؟ کون ہے جو یہ فیصلے ہم پر مسلط کررہا ہے ؟ ہم ہیں کون ؟ غریب؟ مفلس؟ بے روزگار؟ بے حیثیت؟ بیکار یا غلام ؟ سوال ہیں کہ ختم نہیں ہوتے۔ جواب ہے کہ معلوم نہیں۔ کھوج رہا ہوں، کیا کچھ مجھے بھی معلوم ہے؟ کیا میں اس سوال کا جواب ہوں؟ اب بھی جھمگٹا ہے، میرے تعلیم یافتہ ہونے کا، میرے سمجھ بوجھ کا، میں گاوں سے آیا ہوں، جہاں مایوسیاں میرے انتظار میں بیٹھی میرا انتظار کررہی ہیں۔ جہاں دکھ اور درد ایک دوسرے سے ہمکلام ہیں، نور الحق میرے پاس بیٹا ہے، جو انقریب کسی مشن پر شہید ہونے والا ہے، وہ بھی میرے بے چینی سے نالاں ہے، وہ جانے انجانے میں میرے سوالوں کا جواب نہیں دیتا، شاید میں نے کبھی اس سے پوچھا نہیں؟ علم کے دو طلب گار آئے ہیں، میرے پاس میرے کمرے میں، ایک آزادی اور اس سے جڑی اذیتوں کیلئے دوسرا وہ جو رشتہ داری میں لپٹے اس سانپ کو میرے لیےلایا ہے، جو آنے والے دنوں میں مجھے ہی ڈسے گا۔ ایک سوال پوچھتا ہے دوسرا خاموش ہے۔ اس راستے پر میں کیسے چل پڑا ہوں؟ جو میری تاریخ ہے میری پہچان ہے جو مجھے شناخت دے گا؟ جو میرے وجود کو آزاد کردے گا، میں ہوں ڈاکٹر منان ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اشرف ہوں، میں زندگی کی ضروریات پوری کرنے والا وہ بیٹا ہوں جو محنت مشقت سے کبھی نہیں گبھراتا، میں مزدوری کرتا ہوں، تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک مزدور ہوں، جو روزانہ کی بنیاد پر اپنے گھر والوں کیلئے ایک وقت کی روزی کماتا ہوں، در بہ در بھٹکتا ہوں، سنگ بہ سنگ عہد کرتا ہوں کہ کبھی اپنے وطن کیلئے جان قربان کرنے سے نہیں کتراوں گا، میں روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں مگر میرا نظریہ روز توانا ہوتا ہے روز طاقت ور ہوتا ہے، روز میں باکمال ہوتا ہوں۔ دشمن کی تلاش کرتا ہوں پہچان ہوتے ہی اس سے وطن کی جان آزاد کرتا ہوں۔
میں آزادی کا سپاہی ایک باغی ہوں۔ ظلم کی تاریک راتوں کا، جبر کی داستانوں کا، ظلمت و وحشت سے، قبضہ و قابض سے میں باغی ہوں۔ آزادی کا متوالا ایک داعی ہوں۔ گلشن کا باغباں، چمن کا مالی ہوں، ایک آزاد پنچھی، آسمانوں کا شاہین ہوں، پربتوں، کوہساروں کا راہی ہوں، خوف و بزدلی کا منکر میں غلامی کا باغی ہوں۔ میں حنیف بلوچ ہوں، میں وطن پر ہوتے ظلم پر خاموش رہ کر آنکھ بند نہیں کرسکتا، قابض کے خلاف اپنی نفرت کو چھپا نہیں سکتا، بے غیرتی و بے عزتی کی زندگی جی نہیں سکتا، دشمن کے عتاب بھری گولیوں کو سینے پر فخر و سکون کے میڈل سمجھ کر اپنے حصہ کا کردار نبھا کر رخصت ہورہا ہوں، میرا کوئی لمبا پیغام و وصیت نہیں، بس اب وطن تمہارے حوالے ساتھیوں۔
جوان خون ، دنیاوی خواہشوں کو دفن کرنے والے دو تر و تازہ چہرے، ساجد بلوچ اور نورز بلوچ کے ہیں جو جوانی کی دہلیز پر قومی فکر کو بغلگیر کرچکے ہیں۔ آزادی کو مقصد سمجھ کر آزادی کی شان و عظمت کو بلند کرنے والے سرکلوں کو حوصلہ و ہمت بخش رہے ہیں۔ آج آخری رات ہے قربانی کا لمحہ آتا ہے اپنے خون سے وطن کی مٹی کو سیر آب کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ آماچ کو تاریخی تسلسل کا ایک نیا باب سپرد کرکے ساتھی جہد کاروں کو قرض دار کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہوجاتے ہیں۔
زندگی اور موت کا بھی ایک عجیب فلسفہ ہے۔ زندگی ہمیشہ موت کی جانب سفر کرتی ہے۔ کائنات کی ہر شہ کو موت یعنی اختتام کی جانب لوٹنا ہے۔ آزادی و حریت پسند زندگی کی اس آخری انتہاء کو موت کے حوالہ کرتے ہوئے مقصد اور آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ غلامی کو بھی ایک دن موت کو چھکنا ہے۔ موت کے بعد امر رہنے کیلئے عمل و کردار کو قومی ہونا چاہیئے۔
چھ جنوری دو ہزار سولہ کو ہفتے کی صبح بلوچ قوم کے پانچ ستارے، ڈاکٹر منان بلوچ،، اشرف بلوچ انکے بھائی حنیف بلوچ، ساجد بلوچ اور نوروز بلوچ ریاستی جبر کا شکار ہوکر گولیوں سے شہید کردیے گئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔