واشک سے دلہن کو شادی کی تقریب سے اغواء کرنا بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں کا تسلسل ہے۔ جو ریاستی ادارے اور ان کی سرپرستی میں چلنے والے گروپس سرانجام دے رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا ہے۔
وی بی ایم پی رہنماء کا کہنا ہے کہ شادی کی تقریب سے دلہن کو اغوا کرنا بلوچی روایات کے منافی ہے۔ جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی فورسز، خفیہ ادارے اور ان کی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ گروہ ماضی میں بھی بلوچ خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ کوہلو سے زرینہ مری سمیت مشکے، جھاو، آواران، ڈیرہ بگٹی اور بولان سے کئی خواتین کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے اور ان کی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ گروہ بلوچ خواتین کے بے حرمتی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کی جرم کا مرتکب ہوچکے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس حوالے سے وہ اپنا کردار ادا کریں۔
خیال رہے گذشتہ روز واشک کے علاقے راغے شنگر سے سرکاری حمایت یافتہ گروہ سے تعلق رکھنے والے زین جان ولد نور جان نے شادی کے تقریب کے دوران دلہن شبانہ ولد عبدالاحد کو اغواء کرکے اپنے ہمراہ لے گئے جس کے بعد ان کے حوالے سے معلومات نہیں مل سکی ہے۔
بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی شرمناک اور تمام مذہبی، ثقافتی اور انسانی اقدار کے خلاف ہے۔ اس واقعے کا ازالہ کرنا چاہیے۔
Last night, Zain NoorJan, a member of state sponsored death squad member abduct a bride, Shabana A.Wahid 4m Shingar Raghay. It is highly shameful & against all religious, cultural and humanitarian values. @jam_kamal should address this incident & bring the perpetrators to account
— Bibi Gul Baloch (@BibiGulBaluch) April 4, 2020
بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات دلمراد بلوچ نے گذشتہ روز بلوچستان کی صورت حال حوالے مارچ کے مہینے کی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق مارچ کے مہینے میں پاکستانی فورسز نے 50 سے زائد آپریشن کرتے ہوئے سو سے زائد گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 59 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا۔
بی این ایم رپورٹ کے مطابق مارچ کے مہینے میں سات افراد کی لاشیں برآمد ہوئے جن کی شناخت نہ ہوسکی جبکہ مغربی بلوچستان میں مہاجرت کی زندگی گزارنے والے افراد کو بھی ٹارگٹ کلنگ کرکے نشانہ بنایا گیا۔