نورا مینگل سے نورا پیرک تک – برزکوہی

1471

نورا مینگل سے نورا پیرک تک

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ تاریخ مزاحمت میں ایک قابلِ فخر باب، جھالاوان کے پہاڑوں کا غزال، انگریز سامراج کے لیئے خوف کی علامت اور فوک داستانوں میں “نورا نورا حمزہ نا مار اے” جیسے اشعار سے زبان زدِ عام ہونے والے امر کردار نورا کو کون نہیں جانتا۔ وہی نورا مینگل جو ایک للکار کی طرح پلی ماس وڈھ سے اٹھا اور سرزمین بلوچستان کی آزادی کیلئے 9 سالوں تک انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی ایک ایسی تاریخ رقم کرتا رہا، کہ اسکا نام ہی بہادری کا استعارہ بن گیا۔

نورمحمد پہلوانزئی مینگل عرف نورا مینگل ایک ایسے دور میں بندوق بازی میں اعلیٰ مہارت رکھتے تھے، جب بندوق ہی نایاب تھی۔ اور یہ ہنر بھی اس نے دشمن سے سیکھا ہوا تھا، جب وہ پہلے انگریز فوج میں بھرتی ہوئے، تربیت حاصل کی، وڈھ تھانے کے وضعدار مقرر ہوئے۔ لیکن 1910 میں نورا مینگل اپنے ہم خیال ساتھیوں کو جمع کرکے ایک انتہائی طاقتور دشمن کے خلاف تحریک آزادی کا آغاز کرتا ہے اور پھر 1919 تک جھالاوان و لسبیلہ کے پہاڑوں میں رہ کر ایک تاریخی مزاحمت کی قیادت کرتا ہے۔ انگریز اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کے باوجود نا اسے مار سکتے ہیں نا پکڑ سکتے ہیں۔ لیکن ایک بار پھر بلوچ آستین کے ناگ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس طویل گوریلا جنگ کی وجہ سے نورا کا بندوق خراب ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے دیرینہ ساتھی حبیب اللہ خان نوشیروانی سے رابطہ کرتے ہیں، وہ انہیں ایک نیا بندوق دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ نورا خاران پہنچتے ہیں اور حبیب اللہ نوابی کے بدلے نورا کے سر کا سودا لگاتا ہے اور انہیں 1919 میں گرفتار کرواکر بلوچی لعنت کا طوق ہمیشہ کیلئے اپنے گلے کا ہار کردیتا ہے۔ نورا کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے، لیکن وہ تو ایک پہاڑی غزال تھا قید میں کہاں جی سکتا، محض دو سالوں بعد وہ 30 اگست 1921 کو حیدرآباد سندھ جیل میں دوران اسیری شہید ہوجاتے ہیں۔

نورا قید میں عمر بھر بند رہنے کا نام نہیں تھا، تبھی اس نے خود کو جسم کے قید تک سے آزاد کرلیا اور فضاؤں میں تحلیل ہوگیا تاکہ وہ بار بار جنم لیتا رہے، بار بار اپنے وطن پر مرتا رہے، تب تک مختلف، شکل و صورت، رنگ و عمر اختیار کرکے اس مزاحمت کو جاری رکھتا رہے، جب تک کہ اسکا وطن گورے انگریز ہوں یا کالے انگریز یا پھر حبیب اللہ نوشیروانی جیسے آستین کے سانپ ، ان سے مکمل آزاد نا ہوجائے۔ نورا مینگل نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک اور جنم لیا اور پھر وہ نورا پیرک کی شکل میں انہی پگڈنڈیوں کا راہی بنا جن پر وہ ایک صدی پہلے چل چکا تھا۔ لیکن اس بار نورا جان چکا تھا کہ پہاڑی غزال کا مقام قفس نہیں تبھی اس بار زندہ ہاتھ آنے کے بجائے وہ آخری دم تک لڑتا رہا، وہ پھر اپنے وطن کی خاک اور فضاؤں میں تحلیل ہوا ایک بار پھر جنم لینے کیلئے۔

نورا مینگل کے نام و کردار کی لاج کو سینے پر سجاتے ہوئے، نورا پیرک آج ہم میں نہیں رہا۔ نورا کی گھنٹوں تک جاری آخری لڑائی ختم ہوئی، جس جسم میں نورا تھا، وہ ٹھنڈا پڑ کر گرگیا، اب نورا کے فون کا انتظار ختم ہوا، ابھی نورا کے جنگی حکمت عملی و منصوبہ بندی کے بارے میں بہترین و مدلل خیالات کے پیش آنے کا سلسلہ رک گیا، ایک سانس رک گئی اور ایک خوشبو پھیل گئی۔ ہوائیں اب کبھی مند، کبھی تمپ، کبھی بلیدہ، کبھی کولواہ و گچک، کبھی کلبر و ساہیجی، شیرازی اور کوہ باتیل تک نورا کی فکر کی خوشبو کو پھیلا کر اس پیاسے زمین کی تشنگی مٹا رہے ہیں۔

نورا ایک کامل انسان تھا بلکہ انسان سے بڑھ کر وہ ایک پختہ فکر تھا، یہ ایک مطلق سچائی ہے کہ روزانہ کروڑوں انسان لقمہ اجل بن کر ہمیشہ کیلئے فنا ہوتے ہیں، لیکن اگر کچھ زندہ رہتا ہے اور ابد کے سفر کا راہی بنتا ہے تو وہ فکر ہوتا ہے۔ اور نورا ایک فکر تھا اور فکر ہی رہیگا۔

2010 سے لیکر 2016 تک بلوچ آزادی پسند تنظیموں میں سطحی طفلانہ ضد و ہٹ دھرمی، موقع پرستی و مفاد پرستی کی بنیادوں پر جو انتشار و خلفشار پیدا کیا گیا اور جس بدبودار و سیاہ ترین عمل کو نام نہاد احتساب، تنقیدی شعور اور اصول پرستی کا نام دیا گیا، آج نہیں تو کل تاریخ اس دور کو سیاہ حروف میں یاد رکھے گا۔ اس دوران، بلوچ سماج، بلوچ نوجوانوں، بلوچ عوام اور بلوچ تنظیموں میں جس سطح کی مایوسی، بدظنی، ناامیدی اور خوف نے جنم لیا شاید اسکی نظیر نہیں ملتی۔ بلوچ تنظیموں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، غلط فہمیوں کو دور کرنے میں نورا پیرک کی تگ و دو و کردار سے انکار کرنا ممکن نہیں۔ نورا نے اگر پہاڑ جتنا کردار ادا نہیں کیا تو انہوں نے فاصلوں کے اس منجمد سمندر میں تنکے کی طرح گرکر ایک ارتعاش پیدا کردیا، جس نے جمود توڑ دی اور آج واپس وہی سمندر جمود کو توڑ تے ہوئے، جوش کی طرف بڑھ رہا ہے، اپنے اندر سے مایوسی و ناامیدی اور خوف کی گندگیوں کو باہر پھینک رہا ہے، ایک طوفان بن رہا ہے دشمن پر ٹوٹ کر برسنے کیلئے۔

یہ ناکتابی باتیں ہیں اور نا ہی مبالغہ آرائی ہے، یہ وہ حقیقت جو نہ لائیبرئری و الماری کی کتابوں میں ملتا ہے نا سوشل میڈیا کے پوسٹوں، لائیکوں میں ملتا ہے، بلکہ اس حقیقت کا پتہ ہمارے زمین، ہمارے سماج، ہمارے نوجوانوں کے شعور و احساسات، جذبات اور ان کی نیت و عمل میں ملتی ہے۔ اگر ہم اپنے آپ سے، اپنے زمین سے، اپنے زمینی حقائق سے، اپنے قوم سے تھوڑا بھی بیگانہ رہے، تو یہ جان لینا چاہیئے کہ ہم اندھیرے میں پوری رات سفر تو کرتے رہینگے، مگر ایک گول دائرے میں، جب صبح آنکھ کھولیگی، تو جہاں تھے وہی رکے ہوئے ہی ملیں گے۔ پھر مایوسی و ناامیدی اور خوف ہمارے تحریک سے وابسطہ لوگوں کے ساتھ رہے گا۔

یہ سچ ہے کہ اس وقت بلوچ قوم، بلوچ تحریک اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ مواقع لیکر انتہائی سخت مقام پر کھڑا ہے۔ جہاں سے فنا و بقاء کی سرحدوں کی لکیریں شروع ہونگے، ہماری بقاء پوشیدہ ہے، ہماری نسلوں کی قربانیوں میں اور ہماری فنا کی راہیں بے حسی، بیگانگی، خاموشی اور راہ فراریت سے نکلیں گی ۔ چناو و تعین اب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

ابھی ہم مکاری، چالاکی، ہلڑبازی، چرب زبانی اور من گھڑت سیاسی اصطلاحات میں اپنی خاموشی، راہ فراریت، بیگانگی و بےحسی کو خوبصورت لفافے میں ڈال کر پیش کریں یا پھر راہ حق پر چلنے والے اور قربان ہونے والے سپوتوں کی جنگ و قربانیوں کو اپنی نالائقی، بزدلی اور راہ فراریت میں ضائع کریں۔ مگر اس تلخ سچائی کو کوئی بھی تاریخی حقائق سے مسخ نہیں کرسکتا کہ کبھی بھی کوئی بھی قوم نہ قوم بن سکتا ہے نا آزادی کی راہ پر گامزن ہوسکتا نہ ہی بقاء و سلامتی کی جانب جاسکتا ہے اور نہ ہی اپنے دشمن کو شکست دے سکتا جب تک محنت و مشقت، تکلیف اور قربانی کو بسرچشم قبول نا کرلے۔ جب بھی اس مستند فلسفے میں “جب” “مگر” “اگر” یا “لیکن” کا لفظ نمودار ہوا تو آپ جان لیں راہ فراریت و مایوسی کی خوبصورت شکل میں مجھے ایک زہریلا سانپ سونگھ رہا ہے۔

میں یہ دلیل قبول کربھی لوں کہ بغیر قربانی، بغیر محنت، بغیر تگ و دو، صرف اور صرف انتظار میں بیٹھ کر اسی کو موقف و پالیسی وغیرہ وغیرہ سمجھ کر کامیابی کی خوابوں میں محو ہونے سے کامیابی ملے گی۔ مجھے کوئی ایک دلیل اور تحریکی تاریخ سے سے ثبوت و حوالہ دے کہاں اور کب اور کیسے صرف خوشنما تحریروں، تقریروں، نعروں، جھنڈوں، بحث و مباحثوں سے قومی تحریکوں کی ترقی و افزائش پروان چڑھے ہیں اور کوئی قوم خوشحال و آزاد ہوا ہے؟

اس وقت دنیا میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے زبردست چھوٹی موٹی پارٹیاں ہیں، ان کے خوبصورت آئین و قانون ہیں، فلسفیانہ موقف و پالیسیاں ہیں، زبانی کلامی انتہائی خوبصورت پالیسی بیانات و پیغامات ہیں، مگر نتیجہ صفر جمع صفر۔ باقی چھوڑ کر پاکستانی نام نہاد سوشلسٹوں کو دیکھیں، جن میں پڑھا لکھا ایک کھیپ موجود ہے، بہت خوبصورت لٹریچر ہے، انکے گھنٹوں بحث و مباحثے چلتے ہیں، وہ بھی زبردست سیاسی و علمی اصطلاحات کے ساتھ، آپ انہیں سنیں تو سوچیں گے کہ بس دو ہفتے بعد پوری دنیا میں سوشلزم کا راج ہوگا، سرمایہ دارانہ نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکی جائیگی لیکن جب تحریر و تقریر یا بحث و مباحثہ ختم ہوگا تو باہر گلی میں یا ان نام نہاد سوشلسٹوں کے گھر میں بھی سوشلزم اپنی جگہ اس کی معمولی سے جھلک بھی دکھائی نہیں دےگی۔

مطلب یہ ساری چیزیں و حقائق آج کے نہیں اور کچھ نیا نہیں، جب سوویت یونین کا انہدام ہوا، ہماری قوم، ہمارے نوجوانوں کو جدوجہد سے بیگانہ و دور کرنے کی خاطر اس وقت بھی ایسا ماحول تخلیق کیا گیا کہ جی جنگ نہیں، اب قومی پرستی کی سیاست نہیں، حالات بدل گئے، دنیا بدل گئی۔ ہ جذباتی طریقہ یا قربانی اور دشمن کو مارنے سے کچھ نہیں ہوگا، یہ سارے لغو قسم کے دلیل صاف صاف اس وقت شروع ہوتے ہیں جب جنگ سے تھکاوٹ پیدا ہو۔

نورا ان نوجوانوں میں سے تھا، جو اپنے زمین سے کٹے نہیں تھے، جو اپنے معروضی حالات سے جڑے ہوئے تھے، جنہیں ٹھوس زمینی حقائق کا ادراک تھا، جو قومی بیگانگی کو اپنے گرد بھٹکنے نہیں دیتا تھا۔ جو یہ راز جان چکا تھا کہ کامیابی کا راز صرف عمل، مسلسل عمل اور محنت میں ہے۔ جو یہ حقیقت پہچان چکا تھا کہ اس جنگ کا انت یا ہماری کامیابی پر ہوگی یا پھر ہمارے فناء پر، تیسرا کوئی راستہ نہیں، کوئی ایسا راہ نہیں جس سے فرار ہوا جائے۔ وہ جیت کیلئے لڑرہا تھا، نورا کل کیلئے لڑرہا تھا، نورا فناء کے خونی پنجوں سے ایک مستقبل چھیننے کیلئے لڑرہا تھا اور نورا لڑتا رہے گا۔ نورا ہمیشہ سے لڑتا رہا ہے، نورا تو نورا مینگل سے نورا پیرک تک لڑتا رہا، نورا ہر اس نوجوان کے اندر ظاھر ہوکر لڑتا رہے گا جو اپنی زمین سے بیگانہ نہیں ہوئے۔ جیت حبیب اللہ نوشیروانی کی نہیں ہوگی نورا کی ہوگی، کیونکہ نورا کا بندوق کبھی خراب نہیں ہوا بلکہ اس نے وہ بندوق آگے منتقل کردی تھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔