ناکو دلبود کا خیمہ
تحریر: گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دلبود پہاڑی چوٹی پر ایک چٹان کے سائے میں مزری (پیش) سے بکریوں کو باندھنے کے لیے رسی بنانے میں مشغول تھا اور فیضوک کا زہیرونک گنگنا رہا تھا، پہاڑی دامن کے پیچھے ناکو دلبود کا 10 افراد پر مشتمل خاندان کا خیمہ میدان میں سجا ہوا تھا۔ عورتیں اپنے کام کاج میں مصروف تھیں، باقی مرد ناکو دلبود کی دی گئی کاموں میں لگے تھے۔
پہاڑی چوٹی اتنی بلند تھی کہ ناکو دلبود کو چاروں اطراف صاف نظر آرہے تھے، اس کے چھوٹے بچے، پوتے، نواسے نیچے ندی میں چشموں کے بہتے پانی سے لطف اٹھا رہے تھے۔ بھیڑ بکریاں چراگاہوں میں ہری گھاس سے اپنا پیٹ بھر رہیں تھیں۔ بہار کا موسم تھا، ہلکی پھلکی بوندا باندی جاری تھی، جس سے موسم اور پر لطف تھا۔
ناکو دلبود کا خاندان 100 سال قبل آکر یہاں آباد ہوا تھا، چونکہ اب ناکو دلبود اب اسے اپنا جنت کا ٹکڑا کہا کرتا تھا اسی جنت کے ٹکڑے کے لیئے دلبود کے قبیلے کے کئی نوجوان ،بوڑھے شہادت نوش کر چکے تھے اب دلبود کے لیے یہ اس کا وطن تھا۔
ندی کے کنارے کچھ باغات، سرسبز لہرا رہے تھے ان میں انگور، آم، امرود، کجھور، سمیت مختلف قسم کے میوہ جات سمیت غلہ، جو زیر کاشت تھے۔ ان کی نگہداشت ناکو دلبود کا بڑا بیٹا جنگیاں کرتا تھا۔ جنگیاں کے پاس اونٹ، گائے اور ایک خوبصورت گھوڑا تھا، جنگیان ایک مایہ ناز شکاری تھا۔
ناکو دلبود کی بیوی ماہ گنج اپنے قبیلے کی دائی ہیں، عورتوں کے ساتھ ملکر کام کاج کرتی، سب عورتیں اسے ماں کے نام سے پکارتے۔ ماہ گنج کو دلبود کسی دوسری قبیلے سے بیاہ کر لایا تھا، اب سب ماہ گنج کو اس قبیلے کا ماں کہا کرتے۔ نوجوانوں کو شکار یا لٹیروں کی وجہ سے زخم لگ جاتے تو ان کا علاج ماھ گنج کیا کرتے۔
ناکو دلبود کا قبیلہ خوشیوں سے بھرا پڑا تھا، سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتے، ناکو دلبود قبیلے کے سربراہ تھے، اسکی مونچھ، داڑھی پگڑی اور ہاتھ میں لیا ہوا لٹھ، اسے اپنے روایات بہت عظیم تھے۔ اسے اپنے روایات سے بے پناہ محبت تھی، رات کو ہمیشہ چھوٹوں اور بڑوں کا جرگہ بلاتا۔ ہر ایک کو سنتا ان کے مسائل حل کرنے کی تجویز دیتا اور دمبروگ سروز والے سے گانے کی فرمائش ہوتی۔ اسکے شفقت سے سب خوش تھے روز صبح اٹھ کر پہاڑی چوٹی پر بیٹھ کر قدرتی نظارہ کرتا۔
ماہ گنج سے اسے بے پناہ محبت تھی، ماہ گنج کو دلبود اپنا خوشی کہہ کر پکارتی۔ ان کی محبت اور اخلاق کے چرچے ہر قبیلے میں تھے۔ ماہ گنج ایک پاک دامن شفیق اور مہربان عورت تھی۔ دلبود کے ہر مشکل و خوشی میں ساتھ ہوتی۔ ان کی موجودگی میں قبیلے اور خیموں میں کبھی کوئی غم چوم نا سکا۔ قبیلے کی شادی تقریباًت سب مل کر نھباتے، دور سے آنے والے مسافروں کے لیے آرام دہ جگہ تھی، قبیلے کے جوانوں نے آس پاس کے علاقوں کو لٹیروں سے پاک کیا ہوا تھا، یہاں سے کوئی بھی مسافر بخوشی سفر کرتا۔ دلبود کے خیمے کے مہمان نوازی بھی مشہور تھی، ہر وقت مہمانوں کے لیے لذیذ کھانے بناتے۔
دلبود پہاڑی چوٹی پر بیٹھ کر ندی کی طرف دیکھ رہا تھا، دل ہی دل میں یہی دعا مانگ رہا تھا میرا یہ خوشی کبھی نا بکھریں، اسی اثنا اسے ماہ گنج کے آنے کی پاؤں کے آہٹ محوس ہوئی۔ میرے حضور آپ کب سے یہاں بیٹھے ہیں، دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچکا ہے آؤ میرے خوشی یہاں بیٹھ جائیے، یہ کل کی بات لگتی ہے جب میں نے آپ کو آپ کے قبیلے کے خیمے میں دیکھا۔ وہاں دل دے بیٹھی، یہ آج کی بات ہے آپ سے شادی ہوئی، آپ نے خیمے میں لایا۔ دیکھ ہم اب بوڑھے ہوچکے ہیں، وہاں ندی میں اپنے ننے منھے پوتے پوتیاں کو دیکھ کتنے خوش ہیں۔ وہاں قبیلے میں دیکھ لوگ کتنے خوش ہیں، میرے سرتاج آج آپ اس طرح کی باتیں کیوں کررہے ہو اپ کے ہوتے ہوئے سب خوش ہیں، اللہ آپکو ہمیشہ ہمارے سر کا سایا بنائے۔
ماہ گنج کی بات پوری نا ہوئی، دلبود نے ماہ گنج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جب آپ میرے ساتھ ہیں، یہ غم کبھی نہیں آئینگے پہاڑی چوٹی پر بیٹھ کر طرح طرح کے وسوسے آتے ہیں، ہمارے بچے کھالیں بیچنے شہر گئے ہیں، کتنا وقت ہورہا ہے واپس نہیں آئے۔ بشام کے واپس آتے ہی اسکی شادی کرادونگا، اب وہ جوان ہو چکا ہے۔ ماہ گنج اور دلبود نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر بکریوں کو ہیش ہیش کرکے پہاڑی سے نیچے اتارا۔
کچھ سالوں بعد ناکو دلبود ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوئے، ماہ گنج نے ہر طرح علاج کرنے کی کوشش کی سب بیکار ثابت ہوئے۔ ایک شام کو دلبود کے خواہش پر اسے پہاڑی چوٹی پر لے گئے اردگرد کا نظارہ دیکھتے دیکھتے ایک مسکراہٹ کے بعد اپنی جنت نما وطن کو خیرباد کہہ کر پہاڑی چوٹی پر ابدی نیند سوگئے۔
دلبود کے رحلت کے بعد ماہ گنج اسکا غم سہہ نا سکا وہ بھی ہمیشہ کی طرح دلبود کے خیمے سے جدا ہوئے۔ دلبود ماہ گنج کے جانے کے بعد ان کے بچے و قبیلہ بکھیرنے لگا۔ بچے آپس میں جائیداد تقسیم کرنے لگے، قبیلے میں پھوٹ پڑی، ہر طرف لڑائی جھگڑے، ان کی نااتفاقی دیکھ کر لوگوں کی حوس ان کے مال مویشیوں پر پڑنے لگی، قبیلے والوں کو ایک دوسرے سے لڑاتے اور مارتے رہے قبیلہ میں اب کچھ نا رہا۔
دلبود اور ماہ گنج کے خیمے کے بڑے پتھر، مال مویشیوں کے آماجگاہ وہاں رہ گئے اور پہاڑی چوٹی نے پھر نا کبھی خوشی نا کبھی دلبود کو دیکھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔