معاند کون، کرونا یا انقیاد؟ – برزکوہی

550

معاند کون، کرونا یا انقیاد؟

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

وہ وباء جو ایک دور دیسوں کی کہانی سی تھی اور کچھ محدود جگہوں پر تھا، اب سرحدوں، قومیتوں، رنگت، مذاہب اور براعظموں کی تمیز کیئے بغیر ایک لامحدود سطح تک پھیل چکا ہے، اور روز ہزاروں انسانوں کو لقمہ اجل بنارہا ہے، اور گمان یہی ہے کہ یہ بدتر ہوگا اس سے پہلے کہ کچھ بہتر ہو۔ خاص طور پر اس سماج میں جہاں سنیٹائزر و ماسک تک چوری ہوتے ہوں، جہاں ایک صابن اور پانچ کلو آٹا خیرات دینے کے لیے بیس عدد فوٹو کھینچوانے پڑیں، جہاں کرونا جیسا خطرناک مرض، سیاسی ایشو، منافع خوری، دکانداری، تماشہ و ڈرامہ بازی اور کمائی کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو۔ جہاں اس انسانی تباہی و آفت کو موقع غنیمت جان کر جام کمال خوش، عمران خوش، فوج خوش، ہر حکمران خوش، ڈاکٹر خوش، صحافی خوش، خیرات لینے والا خوش اور خیرات دینے والا خوش، چھوٹے بھکاری خوش، بڑے بھکاری خوش، کفن بیجنے والا خوش، تابوت بنانے والا خوش اور گورکن بھی خوش۔ اگر ناراض ہے یا پھر مررہا ہے تو انسانیت و انسانی احساس۔ یہاں تہذیب، شعور اور علم کرونا کا سب سے پہلا شکار بن چکے ہیں۔

یہ کہنا بلکل لغو نہیں ہوگا کہ ریاست ہو یا قوم، فرد، خاندان، دوست یا عزیز ہو جب بھی کوئی مشکل و مصبیت، آفت، آزمائش و کٹھن حالت نازل ہو، تو ان کی اصلیت اور شعور کی سطح واضح ہوجاتی ہے، پتہ چلتا ہے کہ وہ سماج، وہ معاشرہ یا وہ فرد کہاں کھڑا ہے؟ کٹھن حالات کی کردار کی درست گہرائی کا پتہ دیتی ہیں۔

لیکن ہم جب اردگرد دیکھتے ہیں تو سب نے کسی خوبصورت چوغہ اوڑھ کر اپنی اصلیت کو اس میں چھپایا ہوا ہے۔ انسانیت، نیشنلزم، اسلام ازم، قبائلیت، سوشلزم، چاہے کسی بھی ازم کا کوئی بھی دعویدار ہولیکن یہاں معمولی سا بھی رگڑا دو تو پھر سے وہی شعور، وہی خمیر، وہی صداقت، وہی حقیقت نکلے گا۔ حالت کی سخت رگڑ میں ان ازموں کا رنگ ایسے اترتا جاتا ہے کہ اندر سے قرون وسطیٰ کا وہی لٹیرہ نئی ترکیبوں کے ساتھ نکل کر نظر آتا ہے۔

کرونا وباء کی پرجوش فضاء و موجودگی یا بعد از کرونا پوری دنیا خاص کر ہمارا پسماندہ و درماندہ سماج و قوم کا جسمانی و ذہنی حالت و کیفیت کیسا ہوگا؟

ان حالات میں کوئی کرونا سے بچ جائے، فاقہ کشی سے بچنے کیلئے خیرات، مدد، ڈاکہ، چوری، جرائم، جائز و ناجائز سب کچھ کرکے زندہ نکل بھی جائے لیکن جو نفسیاتی اثرات مرتب ہونگے، جب انکے اثرات شروع ہونگے تو خودکشیاں، جرائم، ماردھاڑ، ذہنی تناو، ذہنی دباو، اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزو فرینیا وغیرہ کے مریضوں کی تعداد اس حد تک بڑھینگے، شاید ہم جیسے کم فہم لوگوں کے وہم و گمان سے باہر ہو۔

ہم بحیثیت قوم شطرنج کے عالمی بساط کے ایسے غیرمحفوظ خانے میں پڑے ہوئے ہیں، کہ ہر چال و ہر حرکت کا ہمارے اوپر براہ راست اثر ہوتا ہے، اگر ایک عالمی آفت، دنیا کی معیشت کی جڑیں ہلاکر، ایک نئے ورلڈ آرڈر کو جنم دیتا ہے تو ہم بھلا اسکے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکیں گے۔ عموماً ایسے عالمگیر سطح کے غیر معمولی حادثات، واقعات، آفات یا وبائیں تحریکوں و جنگوں کو یا ایک ہی بار میں صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں یا پھر انکے سر کامیابی کا طرہ سجادیتے ہیں۔

پاکستانی خفیہ اذیت گاہوں میں ہزاروں بلوچ گذشتہ 20 سالوں سے جسمانی تشدد اور قید تنہائی کا عزاب جھیل رہے ہیں۔ ایک طرف کرونا وائرس، دوسری طرف دیہاتوں، پہاڑوں، گدانوں پر جیٹ طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بمبارمنٹ و شیلنگ۔ بلوچ نسل کشی میں کوئی کمی نہیں ہورہی۔ لوگوں کے لاپتہ کرنے کا سلسلہ اسی طرح بدستور جاری ہے اور دوسری طرف بلوچ گھروں میں بے روزگاری، غربت و بے بسی کے عالم میں لاک ڈاون کے ثواب دو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہوجائے مگر مسخ شدہ لخت جگر کی لاش پہنچ جائے۔ ہم مجموعی حوالے سے بحیثیت بلوچ قوم ایسے ہی کربناک و درد ناک عہد سے گذر رہے ہیں۔ اس حالت میں کرونا وائرس سے بچنے کیلئے شاید قرنطینہ و احتیاطی تدابیر ممکن ہوں۔ مگر انسانی وائرس، پاکستانی فوج نہیں چھوڑے گا، پیاس و بھوک نہیں چھوڑیگا، بے روزگاری و درماندگی نہیں چھوڑے گا، بغیر علاج کے باقی بیماریاں نہیں چھوڑیں گے، امداد و خیرات کے نام پر پاکستانی فوج، ان کے ایجنٹ سیاستدان، میر و معتبر، سردار و نواب، صحافی و اینکر، مولوی و ٹکری، بھیک و خیرات دیکر عزت نفس کو مجروع کرکے عزت سے رہنے کےلیئے نہیں چھوڑیں گے۔ بچوں و بچیوں کو کرونا وائرس سے بچا کرکالچ اسکول جانے نہیں دینگے، مگر گھر میں پاکستانی فوج سے نہیں بچ سکتے ہیں۔

غلامی کی اس طویل سفر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں، غلام قوم کا کوئی نہیں ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے تو وہ اپنا خود ہی ہوگا، خود ہی خود کو شعور، علم و عمل اور قومی قوت سے اس مقام تک لانا ہوگا، جہاں سے زندہ اقوام سفر شروع ہوتا ہے۔ ممکنہ حد تک بھرپور کوشش ہونا چاہیئے، سنجیدگی سے اس کربناک و دردناک اور پرآزمائش دور سے اپنی قوم کو نجات کی طرف آگے بڑھانا ہے۔

ہر حالت، ہر مصیبت و ہر آفت اپنی تئیں جہاں بربادیاں لاتی ہے، وہیں اس تباہی میں نئے مواقع بھی موجود ہوتے ہیں۔ جن قوموں کو تباہی و انتشار میں مواقع تلاش کرنے کا ہنر آتا ہے، جو قومیں اندھیری سرنگوں کے آخری سرے روشنی دیکھنے کا ہنر جانتے ہیں، وہی روشنی کا حقدار ٹہرتے ہیں، وہی کامیابی سے ہمکنار ٹہرتے ہیں۔ حقدار ٹہرو، جھولی دار نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔