مرشد کرم کیجیئے
تحریر: احمد علی کورار
دی بلوچستان پوسٹ
مولوی کو خدا رحمت غریق کرے، پیڑ کی بیخ کنی کرکے طبقہ اناث کو ضعیف الاعتقادی سے بچا لیا، ہر پیر کو عورتوں کا جم غفیر بچوں سمیت میٹھی روٹی کے ساتھ درویش پیڑ سے اپنی مرادیں بر لانے کے لیے جاتا تھا۔ ان کی آس پوری ہوتی تھی یا نہیں بچوں کی آس پوری ہو جاتی تھی کیونکہ انہیں میٹھی روٹی مل جاتی تھی۔ اب مولوی کو عورتوں کے ساتھ بچے بھی کوستے اور بد دعائیں دیتے رہتے ہیں، آج بھی عورتوں کا یقین کامل ہے اگر درویش پیڑ ہوتا تو ہم کورونا وبا سے چھٹکا رے کے لیئے منت مانگتے نہ صرف ہمیں بلکہ پوری دنیا کو اس موذی مرض سے نجات مل جاتی۔
سائیں کے اتنے مرید اور عقیدت مند تھے کہ سارا سال ہی گھر سے باہر ہوتے تھے، ان کو فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ وہ گھر کی خبر لے کیونکہ وہ ہمہ وقت اپنے مریدین کا روحانی علاج کرنے میں مصروف ہوتے تھے۔ شاذ ہی آپ گاؤں چکر لگاتےلیکن وہاں بھی مریدوں کی کالز کا تانتا بندھا رہتا۔ مرشد کئی طرح کی بیماریوں کا اپائے کرتے تھے اور کالز کیوں نہیں آتی ہم جو ہر طرح سے بیمار لوگ ہیں، مرشد سمجھتے تھے کہ یہ گھر میں سکھ کا سانس لینے نہیں دیں گے لہٰذا موبائل بند کر دیتے تھے۔
گذشتہ روز کسی دوست نے بتایا کہ مرشد کوشش کر رہے ہیں کہ کورونا کا کوئی علاج دریافت کریں اور مریدین بھی آس لگائے بیٹھے ہیں وبا نے مریدین کو محدود اور مرشد کو بھی اپنے آستانے میں مقید کر دیا ہے۔ سائیں اس وبا کی بیخ کنی کے لیے کوشاں ہیں۔ ادھر سائنسی بابے بھی وائرس کی بیخ کنی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے دنیا کی جتنے بھی وائرسوں کا قلع قمع ہوا ان میں ہمارے سائنسی بابوں کی محنت کا فرما ہے۔ ایڈز سے لے کر ایبولا وائرس تک ملیریا سے لے کر معمولی زکام تک ان سب کا علاج سائنسی بابوں نے دریافت کیا ہے۔ ہمارے روحانی بابا ایسی بیماریوں کا علاج تشخیص کر نے میں ناکام کیوں نظر آتے ہیں، شاید ہم ریسرچ نہیں کرتے اور شارٹ کٹ علاج دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بعض اوقات درختوں کی ٹہنیوں پہ طرح طرح کے ربن باندھ کر وبا کو دور بھگانے کے درپے ہوتے ہیں۔ اصل بابے تو وہ ہیں جنھوں نے لیبارٹریز کو اپنا آستانا بنایا ہوا ہے اور دن رات سائنسی ریاضت میں مشغول ہیں۔ اور اس سے بھی مفر ممکن نہیں کہ سائنسی بابے جو مرکبات تیار کرتے وہ بھی قدرت کی تخلیق کردہ ہیں۔ لیکن وہ اپنے ریسرچ کی ژرف بینی کی وجہ سے قدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے سر فراز ہوتے ہیں۔ لیکن ہم تو Research کی R سے بھی واقف نہیں بس شارٹ کٹ راستوں کا تعین کر لیتے ہیں، پھر جب مریدوں کا کچھ نہیں بنتا روحانی بابا کو کوستے ہیں کہ اس میں تو کرامت ہی نہیں۔ اب مرید بے چارے کو کیا پتہ بابا نے تو اپنی بھر پور کوشش کی تھی۔ اسی کی دہائی میں ڈاکٹر ہوجن کا تعلق تائیوان سے تھا بڑی تگ ودو کے بعد اسے ایڈز کا علاج کرنے میں بہت کامیابی ملی۔
اب بھی ڈاکٹر ہو اپنی پور ی جانفشانی سے سائنسی آستانے میں کورونا کو شکست دینے کے درپے ہیں اور واثق امید ہے کہ جلد ہی کوئی ویکسین منظر عام پر آئے گی۔ ان سائنسی بابوں کی ریاضت سے انکار ممکن نہیں انہوں نے اپنی زندگیاں انسانی جانیں بچاننے میں کھپائی ہیں، کئی چلے کاٹے ہیں تب جا کے گیان ملا ہے اور یہ سب قدرت کی دین ہے شرط یہ کہ ہم جہد مسلسل سے کام لیں۔ مریدین کا ایقان ہے کہ مرشد کو گیان ملتا ہے لیکن بیچاروں کو پتا بھی نہیں یہ ہر کسی کو نہیں ملتا۔ خیر! سائنسی بحران میں مبتلا قوم اب بھی مرشد کے نمبر آن ہونے کی تاک میں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔