لمہ ماہ گنج کو آزادی مبارک – حاجی حیدر

255

لمہ ماہ گنج کو آزادی مبارک

تحریر: حاجی حیدر

دی بلوچستان پوسٹ

“یہ جنگ یعنی (نوآبادیاتی نظام ) مردوں نے برپا کیا ہے اور اس کی زد میں عورتیں آتی رہی ہیں، اس کے خاتمے کےلیئے، اس نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانے کےلیے اب عورتوں کو آگے آنا ہی پڑے گا” جلیلہ حیدر

پتہ نہیں کچھ لوگوں کا مرتبہ اتنا بلند کیسے ہوتا ہے کہ خاران سے روانگی سے قبل میں نے فوری فیصلہ کرلیا مات ماہ گنج کو الوداعی خط لکھوں۔ کیونکہ یہ نام میرے لیے ہمیشہ سے ایک جانا پہچانا نام رہا ہے، آخر کیوں نہ ہو جس نے حکمران طبقہ (ایلیٹ) پاکستانی مسلم فیمنسٹوں کو حقیقی معنوں میں بتایا کہ بلوچستان میں سترہ سالوں سے جاری جنگ نے جس بغاوت کو جنم دیا ہے اس کی مثال شاید کسی اور جگہ ملے۔ آج بلوچستان میں عورتوں کے مساٸل اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کرنا نہیں، بلکہ آج بلوچستان میں عورتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بچے لاپتہ ہیں۔

بے شک ماہ گنج کسی بھی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم نہیں رہی، اس نے black feminism کے حوالے سے کچھ سنا بھی نہیں تھا، سیمون دی بوا، ورجینا وولف اور Gloria Steinem اور امریکی بلیک فیمنسٹ Audre کی کتاب Your Silence Will Not Protect You کو نہیں دیکھا ہوگا، لیکن اس نے معاشرے میں ایک تحریک تو پیدا کی، اس نے اس مردانہ سماج اور پاکستان میں پدرشاہی اور بورژوا دانشوروں، فیمنسٹوں اور قوم پرستی اور طبقاتی جدوجہد کی ڈھونگ رچانے والوں کو بتا دیا کہ ان نظریات کو استعمال کرکے آپ بیوروکریسی، سول مراعات حاصل کر تو سکتے ہیں لیکن آپ ہرگز ایک حقیقی انقلابی دوست نہیں کہلائے جا سکتے۔

ماہ گنج نے الوداعی لمحات میں نوجوانوں کو یہ پیغام دیا جس پر فینن لکھتے ہیں محکوم ممالک میں کھیلوں کے جتنے میدان ہیں انہیں آگ لگا دینی چاہیئے۔ تیسری دنیا کے نوجوانوں کو کوئی حق نہیں کھیل کود کا، تب تک کھیلوں کے میدان آباد نہ ہوں، جس پر اٹالیٸن پولٹیکل تھیوریسٹ اور مارکسسٹ گرامچی نے کہا محکوم اقوام کو ایلیٹ کلاس کے کلچر سے ہر حوالے سے بائیکاٹ کرنا چاہیئے جس سے بالادست قوتوں کو طاقت ملتی ہے۔

ماہ گنج ہمیں چھوڑ کر چلی گئی لیکن ہمیں یہ بتاکر کہ زندگی اسی صورت آگے بڑھے گی، جب سامراج کی بدبودار لاش گلنا شروع ہوجائے۔ ماہ گنج مزاحمت کی وجہ بنی، جس نے اس مردے معاشرے کے لوگوں کو ٹیگور کا یہ پیغام پہنچا گٸی کہ

“My country does not become mine simply because it is the country of my birth. It becomes mines on the day when i am able to win it by force”

ماہ گنج کی موت دراصل ہمارے بورژوا قوم پرستوں کی موت ہے، ماہ گنج تو کب کی یہ جنگ جیت چکی ہے۔ یقیناً آج فاروق بلوچ زندان میں فخر سے اپنے آپ کو ماہ گنج کا بیٹا کہے گا۔ ماہ گنج ہمیں اس ظالم معاشرے میں تنہا چھوڑ کر چلی گئی لیکن خود ہمیشہ ہمیشہ کےلیے آزاد ہوگٸی ان کو یہ آزادی مبارک، یہ جیت مبارک۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔