لاپتہ ساجد بلوچ اور پاکستانی مارکسسٹ – حاجی حیدر

779

لاپتہ ساجد بلوچ اور پاکستانی مارکسسٹ

تحریر: حاجی حیدر

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں گذشتہ سترہ سالوں سے جاری جنگ نے کئی ایک بحرانوں کو جنم دیا ہے۔ جس میں لاپتہ افراد کی کیسز سے لیکر ماورائے عدالت ، جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں ، اجتماعی قبروں اور کئی تضادات کو جنم دیا ہے اسکی مثال شاید کسی اور جگہ ملے۔

بلوچستان اور بلوچوں کو اس اکیسویں صدی میں خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والی نوآبادیاتی نظام اور پاکستانی مارکسسٹوں نے اب بلوچ کی محکومیت کو بھی Privatize کرکے انٹرنیشنل مارکسسٹ الائنس سے پیسہ وصول کرکے کراچی کے ڈیفنس سے اور لاہور کی گلبرگ اسیکموں میں خود رہائش پذیر ہوگئے ہیں۔

سویڈن سے لاپتہ شخص ساجد بلوچ کیلئے اگر پاکستانی لیفٹ نہ نکلے اور لیفٹ کا بلوچستان کے آباد کار اور مزدوروں اور کسانوں سے کوئی تعلق نہ ہو جو ان سے نوالہ چھین لیا گیا ہے، اگر ان ایشوز پر پاکستانی لیفٹ اپنے آپ کو نہیں جوڑے گی اور لیفٹ فقط بیانات دیتی رہے گی کہ اور تھیسیز پیش کرتی رہی کہ وینزویلا میں یہ ہورہا ہے، یوراگوئے میں یہ ہورہا ہے فلاں جگہ انقلابی بڑھتے جارہے ہیں سرخ پرچم لہرا جارہا ہے، اور بلوچستان کے وہاب بلوچ اور فیروز بلوچ اور ساجد بلوچ کیلئے پاکستانی لیفٹ کا اگر کوئی تعلق نہ ہو تو وہ لیفٹ دو نمبر کی کہلائے گی۔

پاکستانی لیفٹ کو کامریڈ لینن کا یہ قول کیوں یاد نہیں آتا جس نے کہا تھا کہ ‘ایک حاکم قوم کے سوشلسٹ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ محکوموں اقواموں کی برابری کا تحفظ کرئے۔ جدوجہد جتنی بھی ہے، ترقی پسند سیاست کی جب تک وہ ایک پاپولر sentiment کیساتھ نہیں جوڑے گی، اور نچلے طبقات اور محکوم اقوام پر مشتمل نہیں ہوگی، اور لیفٹ کے پیچھے کارپوریٹ سیکٹر اور ارب پتی ہونگے تو ہرگز لیفٹ اور مارکسسٹ نہیں کہلائیں گے۔

ہمیں ان پڑھ، جاہل اور بلوچی بھائی کہنے والے اور خود کو حقیقی لیفٹ کہنے والے تنظیمیں کیوں خود بلوچستان کے ریکوڑک، سوئی گیس اور گوادر کو neoliberalism پالیسی کے تحت استعمال کرکے چھوٹی قوموں کا استحصال کرنے والے خود کیوں endanger species کا شکار ہیں۔

بلوچستان میں کئی دہائیوں سے جاری جنگ نے اب ہر بچہ بچہ، گلی کوچوں سے لیکر عالمی اقوام تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ انکا مسئلہ ایک سیاسی جنگ ہے، جو فینن کے الجیریا اور چے کے بولیوا اور کاسترو کے کیوبا کیساتھ جڑی ہوئی ہے۔

بلوچستان کے خود بورژوا نیشنلسٹ اور بورژوا دانشوروں نے بھی intellectual dishonesty کا مظاہرہ کیا ہے بقول نطشے کے ” A Great Truth wants to be criticized not idolized ” جس پر تنقید اور اختلاف رائے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا جس پر ساحر نے کہا خوب فرمایا تھا کہ ” ہمارا راز ہمارا نہیں، سبھی کا ہے، چلو کے سارے زمانے کو راز داں کر لیں۔

یہ اب حقیقت ہے کہ بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کو پاکستانی لیفٹ اور بورژوا دانشوروں، اور سیاسی رہنماؤں نے ہمیشہ victim card کے طور پر استعمال کیا ہے، لیکن انکا سیاسی اور دانشمندی رویہ کھبی بھی بلوچ معروض نہیں جوڑا ہے۔

لیکن بلوچستان میں جاری جبر نے جس بغاوت کو جنم دیا ہے جس پر سمرا خان کی یہ شعر بلکل درست ہے۔

اس شہر جبر میں میرا وجود بغاوت جنم دے گا
ہر سچ بولنے والا میرا ہم نشین ہے، مجھے مار ڈالیے
میری آواز گونجتی ہے ظلم کے ایوانوں میں
مجھ میں بھی اک سبین ہے، مجھے مار ڈالے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔