لاپتہ بلوچ صحافی
ٹی بی پی اداریہ
اٹھائیس مارچ بروز جمعہ آن لائن اخبار بلوچستان ٹائمز نے انکشاف کیا کہ انکا چیف ایڈیٹر ساجد حسین 2 مارچ 2020 سے لاپتہ ہے۔ 39 سالہ بلوچ صحافی سے آخری بار دو مارچ کو دن گیارہ بجے سویڈن کے شہر اوپسلہ میں رابطہ ہوا تھا۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ “ساجد حسین قتل کی دھمکیاں ملنے، گھر پر چھاپوں، خاندان اور خود پر کڑی نگرانی اور تفتیش کی وجہ سے 2012 میں پاکستان سے فرار ہوگئے تھے۔ ساجد 2012 سے 2017 کے بیچ اومان، متحدہ عرب امارات اور یوگنڈا میں زندگی گذارتے رہے اور آخرکار انہوں نے سویڈن میں پناہ کی درخواست دی۔”
اظہارِ رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کی حق کے حفاظت کا داعی عالمی ادارہ “رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز” نے ساجد حسین کے گمشدگی کا الزام پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) پر لگایا ہے۔
مذکورہ تنظیم جسے عالمی طور پر ” رپورٹرز ساں فرنٹیئرز” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکے خفیہ ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق پاکستان سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کی ایک فہرست جو اب مختلف ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گذار رہے ہیں، آئی ایس آئی کے اندرونی حلقوں میں گردش کررہی ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ 2018 میں بھی پیش آیا تھا، جب انسانی حقوق کے ایک کارکن راشد حسین متحدہ عرب امارات سے اماراتی خفیہ پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد غائب ہوگئے تھے۔ مختلف مصدقہ ذرائع کے مطابق بعد ازاں انہیں ایک پرائیوٹ جہاز میں پاکستان ڈی پورٹ کردیا گیا تھا لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد تاحال پاکستانی حکام نے انہیں منظر عام پر نہیں لایا ہے۔
تاہم سویڈن میں ابتک تک سویڈش پولیس کو اپنا حتمی تفتیشی رپورٹ ساجد حسین کے بابت پیش کرنا ہے۔ اگر ساجدحسین کے گمشدگی میں پاکستانی حکام کے ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں، جیسا کہ صحافتی تنظیمیں الزام عائد کررہے ہیں تو پھر ایک بات واضح ہوجائیگا کہ بلوچستان کے حالات آشکار کرنے والے بلوچ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کیلئے دنیا کا کوئی بھی کونا محفوظ نہیں ہے۔
ایک مشہور کردش کہاوت ” پہاڑوں کے علاوہ کوئی دوست نہیں” کردوں کے ان دگرگوں حالات اور مہذب اقوام عالم سے نا امیدی کا اظہار کرتی ہے جب مشکل حالات میں انہوں نے مہذب اقوام میں کوئی دوست نہیں دیکھا تو انہوں نے اپنے پہاڑوں سے دوستی کرلی۔ جس طرح بلوچستان سمیت دنیا بھر میں بلوچ نشانہ بن رہے ہیں، اس بات کا خطرہ ہے کہ بلوچ بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ “پہاڑوں کے علاوہ کوئی دوست نہیں”