قوم پرستی کیا ہے؟
مشکور انور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں قوم پرستی نے یورپ میں قومی ریاستوں کو جنم دیا اور قوم پرستی کے بطن سے جنم دینے والے کئی ریاستوں نے سرمایہ دارانہ یا توسیع پسندانہ پالیسیوں کے پیش نظر کولونیل ازم اور امپریل ازم کی بنیاد رکھی اور پھر کولونیل ازم اور امپریل ازم کے ردعمل میں نیشنل ازم نےایک مرتبہ پر مزاحمتی عمل سے قومی تشکیل کے مراحل کو کامیابی کے ساتھ طے کرنے اور مزید قومی ریاستوں کے قیام میں مدد فراہم کی۔
نیشنل ازم کی تھیوری پر یقین رکھنے والے لوگ گلوبلائزیشن کے اس دور میں بھی نیشنل ازم کے مثبت اور مزاحمتی کردار کو نہ صرف مانتے ھیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نیشنل ازم کا نظریہ فطری عمل کا حصہ ہے جس طرح ماضی میں انسانی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں متاثر کن کردار ادا کیا تھا اسی طرح مستقبل میں بھی یہ اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
بنیادی طور پر قوم پرستی کا تصور قوم سے نکلا ہے، جو لاطینی زبان کے لفظ “ناسی” سے اخذ کیا گیاہے۔ جس کا مطلب”پیدا ہونا” ہے۔ یہاں پر پیدا ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کسی خاص کمیونٹی، مخصوص اجتماع یا گروہ میں پیدا ہونا ہے۔
اسٹالن نے قوم کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
” کسی قوم کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زبان ہو، اس کا مخصوص علاقہ(سرزمین) ہو اور اسکی مشترکہ معاشی سرگرمی یا مشترکہ معاشی مفادات ہوں”۔
چونکہ انسانی معاشرے میں مختلف زبان، ثقافت اور مذھب رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو مختلف گروہوں اور کمیونٹیوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور یہ گروہ فطری عمل و ارتقاء کا نتیجہ میں سامنے آتے ہیں اس لیے ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
زبان، ثقافت ، مذہب مشترکہ تاریخ یا مشترکہ علاقہ رکھنے والے یہ گروہ آپس میں ایک خاندان کی مانند ہوتے ہیں ۔ ان میں آپس میں وہ تمام جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں جو ایک انسان اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے رکھتا ہو، اس قسم کے جذبات یا احساسات کا اظہار وہ خاص طور پر اس وقت کرتے ہیں جب کوئی بیرونی حملہ آور آکر ان پر حملہ کرکے ان کے مشترکہ مفادات کو نقصان پہنچائے۔ اس صورت میں وہ یکجہتی کا اظہار کرکے اپنے سیاسی، معاشی اور قومی حقوق کا دفاع کرتے ہیں۔لہذا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی تشکیل میں قوم کا آپس محبت اور عصبیت کے جذبات و احساسات کا کردار انتہائی اہم ھوتا ہے۔
نیشنل ازم کے فلسفہ کو جاننے کے لئے ان تین بنیادی خیالات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے ۔
پہلا قوم کا ھونا
دوسرا قومی شعور و آگہی اور
تیسرا قومی خودمختاری ۔
پہلا نیشنل ازم کے فلسفے پر یقین رکھنے والے نہ صرف انسانی معاشرے میں قوم کے وجود کو فطری عمل کا حصہ تصور کرتے ہیں بلکہ معاشرے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود میں قوم کے کردار کو بنیادی قرار دیتے ہیں ۔
دوسرا نیشنل ازم کا نظریہ منتشر اور ٹکڑوں میں تقسیم کمزور قوموں کو یکجا کرنے کے لیے سیمنٹ کا کردار ادا کرتا ہے اور یہ طویل و مشکل جدوجہد سے محبت و عصبیت کے جذبات اور احساسات کے ذریعے باقاعدہ قومی یکجہتی اور قومی شعور و آگاہی فراہم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے ۔
تیسرا یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ قوم کے پاس اس کی اپنی سرزمین ہو جہاں پر اسے متفقہ آٸین کے مطابق مکمل سیاسی، معاشی اور سماجی اختیارات حاصل ہوں۔
لہذا اگر کسی قوم کے پاس درج بالا بنیادی حقوق نہ ہوں تو اس قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان حقوق کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرے، جیسا کہ برصغیر پاک و ہند میں برطانیہ راج کے خلاف ہندوستان کی سیاسی جماعتوں نے جدوجہد کی تھی اور نیشنل ازم کے ذریعے عالمی سامراج کو کمزور کرکے آزاد اور خودمختار ریاستیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔