فاروق بلوچ کی کتاب پہ تبصرہ – شبیر بلوچ

1430

فاروق بلوچ کی کتاب پہ تبصرہ

تحریر : شبیر بلوچ ، انفارمیشن سیکریٹری بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخی واقعات پر قلم آزمائی کرنے اور تاریخی حقائق کوچند الفاظ میں پرو کر قارئین کو مزید علمی بحث کرنے کی طرف راغب کرنا مجھ جیسے کم علم، نادان اور تاریخ سے نابلد انسان کے بس کی بات نہیں،  اور اِن تمام عوامل سے قاصر ہونے کے باجود بطور مورخ کردار ادا کرنا میرے خیال میں تاریخ کے ساتھ کسی کھلواڑ سے کم نہیں، چنانچہ زیرِ نظر تحریر ایک کتابی خلاصے کی حیثیت رکھتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اِس مختصر اور جامع تحریر میں مجھ جیسے تاریخ سے نابلد ایک سیاسی طالبعلم کے آرا کی گُنجائش ضرور ہے۔

تاریخی، سیاسی، سماجی اور نظریاتی بنیادوں پر آج تک ہزاروں کی تعداد میں کتب شائع ہوئیں ہیں،  جس میں مختلف مصنفین، دانشور اور تاریخ نویسوں نے اپنے قلم کے جادو جگائے ہیں ، جہاں تک میرا خیال ہے کہ کسی شخصیت کی زندگی ، حالات و کردار پر تحریری دستاویز لکھنے اور جامع رنگ دینا اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک منفرد اور مشکل کام ہے کیونکہ انسانی زندگی حالات و واقعات کے پیچ و خم میں کئی ایسے پیچیدہ موڑ اختیارکرتے ہیں،  جہاں واقعات کو متعصب شکل دینے سے گریز کر کے حقائق کو بنیاد بنا کر تحریروں کو ایک سانچے میں پرونا نہایت ہی کٹھن کام ہے۔

زیرِ نظر تحریر ایک ایسے ہی کتاب کا خلاصہ ہے جو ایک عظیم بلوچ رہنماء نوری نصیر خان کی داستانِ حیات، فکر وافکار اور سیاسی حالات کے پیش خیمہ اُن کی رہبری پر اٹھنے والے سوالات اور اُن کا جامع اور تحقیقی بنیادوں پر نقطہ نظر پر مبنی ہے۔

ڈاکٹر فاروق بلوچ کا شمار بلوچ قوم کے اُن چند گنے چُنے تاریخ نویسوں  میں ہوتا ہے جنہوں نے بلوچ قومی تاریخ، قومی تہذیب اور ماضی کی سیاسی کارناموں اور قومی اساس کی سیاسی و معاشی حالات کی کامیابی و کمزوریوں کو نئے زاویے سے کُچھ اس طرح پرکھا کہ اِس پس منظر نے بلوچ قوم کے اِس تاریخی دوراہے پر ابھرتے ہوئے کئی پیچیدہ سوالات کو علمی،سائنسی اور تاریخی حوالے سے کچھ یوں پرکھا کہ یہی جوابات آنے والے وقت میں فکری سوچ کا منتظر ہیں۔

ذی شعور بلوچ عوام میں ابھرنے والے یہ سوالات کہ بلوچ کون ہیں؟بلوچ قوم کا تاریخ کیا ہے؟ بلوچوں کی سیاسی بصیرت کی ابتداء کب ہوئی؟ اِن تمام سوالات کے جوابات کیساتھ ساتھ فاروق بلوچ کی جانب سے ماضی کے رہنماؤں  کی زندگی اور بلوچ قومی تشکیل میں اُن کے کردار پر جس شائستگی سے قلم آزمائی ہوئی انکا جائزہ لینا بحیثیت ایک سیاسی کارکن ہمارے لیے اشد ضروری ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اپنے اسلاف   کو  تسلیم کیا اور تمام کوتاہی اور غلطیوں کو بغیر کسی جواز کے نظر انداز کیا تاریخ کے صفحہ ہستی سے مِٹ گئیں۔

ڈاکٹر فاروق بلوچ کی زیر نظر کتاب خان اعظم نوری نصیر خان کی حالات زندگی اور بطور خوانین قلات اُن کی حکومت اور سیاسی کردار فاروق بلوچ کی ایک علمی کاوش ہے، انہوں نے جس شائستگی اور ہنر سے نصیر خان کی قیادت میں ہونے والے سیاسی منطرنامہ کو حسن اسلوبی سے پیش کیا نہایت ہی قابل داد ہے۔

تاریخ بلوچستان میں نصیر خان نوری کو صرف ایک عظیم مجاہد کی حیثیت سے ہی نہیں جانا جاتا بلکہ ایک عظیم سفارت کار،  قوم پرست، ایک  مدبر اور  سلطنت کے قائد کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

فاروق بلوچ کی کتاب مندرجہ ذیل چار نکات پر مشتمل ہے جنہیں انہوں نے نہایت ہی مدبرانہ اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر پرکھا ہے۔

اول : نصیر خان نوری کی ابتدائی زندگی
دوئم : نصیر خان نوری کی قیادت اور جائزہ
سوئم :  متنارعہ شخصیت کی بنیادی جواہات
چہارم : حروف آخر ایک تنقیدی جائزہ

نصیر خان کی ابتدائی زندگی مختلف واقعات ،مشکلات، مصائب وآلام اور آپسی رسہ کشی میں گزرنے کی وجہ سے بلوچ مورخین ہمیشہ سے ہی نصیر خان کی زندگی اور قیادت کو متنازعہ نگاہ سے دیکھتے ہیں،  جو ایک بلوچ قومی ہیرو اور تاریخ ساز شخصیت کے کردار کیساتھ مکمل نا انصافی ہے۔خانِ اعظم، نوری نصیر خان کی سیاسی تحریک کامیابی و کامرانی اور کمزوریوں  پر بحث کرنے سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انکی ابتدائی زندگی کیسے گزری ہے، نصیر خان کی تاریخ پیدائش پر مختلف رائے دی جاتی ہے ، بعض مورخین انکی پیدائش سن 1716 تحریر کرتے ہیں جبکہ ایک مورخ تاریخ پیدائش 1722 لکھتا ہے اور اسی چپقلش میں تاریخ پیدائش پر اتفاق کرنا ممکن نہیں، میر نصیر خان میر عبد اللہ خان کا چھوٹا بیٹا میر محبت خان کا سوتیلا اور میر اہلتاز خان کا سگا بھائی تھا، اور یوں نصیر خان کی عظیم سیاسی اور محازی زندگی کی ابتداء شاہی خاندان میں اٹھاریویں صدی کی اولین دہائی میں ہوا۔

بلوچ قومی تاریخ کے حوالے سے بطور مورخ بعض ناقدین نصیر خان کے ہاتھوں میں اپنے بڑے بھائی کے قتل کو بنیاد بناکر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، دوسری طرف ہمیں جاننا ہوگا کہ تاریخ کے اوراق میں  شخصیات ہمشیہ تنقید کا نشانہ بنتے رہیں جس کی واضح مثال ماؤزے تنگ، لینن   اورفیڈل کاسترو جیسے  انقلابی شخصیات بھی بطور متنازعہ کردار کے کئی مورخین اور دانشوروں کی تنقید کی زِد میں رہیں۔

لہذا یہ امر واضح ہے کہ نصیر خان کے سیاسی کردار اور اُن پر تنقید اپنی نوعیت کے اعتبار سے نئے اور انوکھی نہیں ، بلکہ تاریخ ساز شخصیات کیساتھ اِس طرح کا سلوک صدیوں سے چلا آرہا ہے۔

مورخین کی جانب سے نصیر خان پر ہرزا سرائی کے باوجود فاروق بلوچ اس واقعہ اور کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے کہ میر اہلتاز خان کے قتل کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس نے نادر شاہ کے سامنے بلوچستان کے خلاف ہونے والی باتوں کو نہ صرف خاموشی سے سنا بلکہ وہ شاہ کی باتوں پر سر ہلاتے رہے ، جبکہ نصیر خان اس سلسلے میں دانت پستا رہا اور آخرکار دونوں بھائیوں میں اس بات پر تکرار ہوئی جس پر نصیر خان نے بڑے بھائی کو ملامت کیا جس سے اہلتازخان مشتعل ہوا اور نصیر خان پر حملہ کیا اور دفاعی عمل میں میر اہلتاز خان قتل ہوئے، جبکہ دوسری جانب کتاب کے صفحہ نمبر ۴۴ پر فاروق بلوچ نشاندہی کرتا ہے کہ”میر نصیر خان اور اسکا بھائی نادر شاہ کی قید میں تھے کسی بات پر جھگڑا ہوا، اہلتاز خان نے غصے میں آکر میر نصیر خان پر تلوار سے وار کرنا چاہا جبکہ نصیر خان نے اپنی تلوار میان سے کھینچی تو وہ سیدھا اسکے بھائی کے پیٹ میں جاکر لگی”،بعض مورخین اس بارے میں رقمطراز ہیں کہ میر اہلتاز خان ضدی،کوتاہ اندیش، عیاش اور ناسمجھ شخص تھا جس نے1736 کے اوائل میں میر اہلیتاز خان کو قندھار میں طلب کیا جسے اُس نے احتسابی عمل کے طور پر گردانا اور خوف کے مارے لرز گیا، دوسری طرف میر محبت خان نے موقع دیکھ کر بھی اپنی اقتدار کی خاطر قندھار پہنچ کر نادر شاہ کے سردمہری میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔

ماضی و حال کی خامیوں اور غلطیوں کو سمجھ کر ہی ہم مستقبل کیلئے ایک صحیح اور جامع راستہ تلاش کرسکتے ہیں، تاریخ کا یہ احتسابی عمل بحیثیت بلوچ قوم ہمیں فکری طورپر جمود کی نہیں بلکہ فکری نشوونما کی جانب ابھارتی ہے،  نیشنل ازم کی سیاست کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں تاریخی کوتاہیوں اور غلطیوں کو پرکھ کر اپنے حال کو جدید بنیادوں پر یوں استوار کرنا ہے کہ بلوچ قوم ماضی اور حال کی ایک ایسی آمیزش ہو جو آج کی جدید دنیا کے ساتھ مدمقابل ہونے کیساتھ ساتھ اپنی اپنی قومی تشخص کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو۔

بلوچ قومی تاریخ پر اگر سرسری نظر ڈالا جائے تو یہ حقیقت عیاں  ہوتی ہے کہ بلوچ قوم اور بلوچ زمین ہمیشہ سے بیرونی یلغار اور بیرونی قبضے کے زیرِ تسلط رہا ہے اور بلوچ قومی تاریخ قبضہ گیروں کے خلاف جنگ اور ایک منظم قومی ریاست کی تشکیل کیلئے ایک جدوجہد کی داستان ہے،  آج اگر تاریخ کے پنوں کو اُلٹا جائے تو یہ حقیقت ایک واضح شکل میں ہمارے سامنے عیاں ہوتی ہے کہ عالمی اور علاقائی سیاسی چکرویوں سے نابلد ہونے اور انفرادی خواہشات کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے آپسی رسہ کشی میں مصروف عمل رہے، اسلاف سے سرزد ہونے والی تاریخی غلطیوں کا ازالہ آج تک بلوچ قوم تسلسل کیساتھ بھگت رہی ہے۔

اگر بلوچ قومی تاریخ کو جامع بنیادوں پر پرکھا جائے تو چاکر وگواہرام کے تاریخی تیس سالہ کُشت وخون کے باوجود سترھویں صدی میں پایہ تشکیل کو پہنچنے والی ریاست قلات کے خوانین بھی ماضی کے غلطیوں کو سمجھنے سے قاصر رہے اور کئی ایسی غلطیوں کے مرتکب رہیں جس نے بلوچوں کی حکومت کے کمزور ہونے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔۱۷۳۷۔۱۷۴۹ تک خان آف قلات کے عہدے پر فائز رہنے والے میرمحبت خان نے نادر شاہ کی حق حاکمیت اور سیادت کو قبول کرکے ریاستِ قلات کی آزاد ریاست کو ایرانیوں کی غلامی میں دے کر ایک بیرونی طاقت کو بلوچوں کی آزادی سلب کرنے کی من چاہی آزادی عطا کی اور ایرانیوں نے ایک قبضہ گیر کی حیثیت سے بلوچوں کے استحصال میں کوئی کسر نہ چھوڑی، خانِ بلوچ (۶) میر نصیر خان کو بلوچوں کی اپنی سرزمین پر کسی بیرونی قبضے کا نہ صرف دکھ اور درد تھا بلکہ وہ شروع ہی سے بلوچ قوم کو اس غلامی اور استبدادی نظام سے نجات دلانے کا جذبہ رکھتے تھے،  اس تاریخی حقیقت میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ نوری نصیر خان درانی افغانوں کی مدد سے بلوچستان میں برسر اقتدار آیا اور بعد ازاں درانیوں سے لڑ کر بلوچستان کو آزادی دلائی، بعض ناقدین اس امر کو وجہ بنا کر نصیر خان کی شخصیت  پر الزام تراشی کرکے داغدار بنانا چاہتے ہیں حالانکہ نوری نصیر خان آج تک وہ واحد بلوچ رہنماء کی حیثیت سے تاریخی پنوں میں جانے جاتے ہیں جنہوں نے داجل و ہڑند کے قلعہ سے لیکر سیستان تک بلوچ ریاست کی تشکیل نو کی اور بکھرے ہوئے بلوچوں کو ایک ہی کنفیڈریشن میں ایسے پرویا کہ ریاست قلات اِس خطے میں ایک اہم اور طاقتور مملکت کے طور پر ابھرا اور بلوچوں کی ایک منظم ریاستی خواب کو جلا بخشی۔

بلوچستان کی سیاسی تاریخ کئی پیچ وخم کھاتی ہوئی  قومی مزاحمت سے لیکر قومی قیادت کی دلیری اور بہادری کیساتھ غیروں کی خوشنودی جیسے لاحاصل خوابوں کا ایک نمونہ اختیار کر چُکی ہے، اپنوں کی نالائقی کہے یا کہ حالات کی تُندہی اِس تمام تاریخی دوراہے میں بلوچ قومی ثقافت بیرونی یلغار اوربیرونی طاقتوں کے مفادات میں تصادم کے باعث مسخ ہوتی رہی ہے اور یہ تسلسل آج تک جاری ہے۔

فاروق بلوچ اپنی کتاب خان اعظم نصیرخان نوری میں لکھتے ہیں کہ ” نصیر خان نوری بلوچ قوم پرستانہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہے بلکہ ان کی قوم دوستی وطن دوستی اور سیاسی بصیرت و بلوغت کا بھی مظہر ہے کہ جب احمد شاہ ابدالی نے پنجاپ پر قبضہ کرنے کے بعد انہیں پنجاپ کے بٹوارے کی حصہ دینا چاہا تو انہوں نے نہ صرف ڈیرہ جات کے خالص بلوچ علاقہ جات کے علاوہ دیگر علاقے ٹھکرادیئے ، بلکہ اِس اعتبارسے چند تاریخی الفاظ دہرائے ا۔۔۔” بلوچستان کے حدود وہاں تک ہے جہاں تک بلوچی بولی جاتی ہے ”۔

دوسری جانب بعض مورخ نے نصیر خان نوری کو مختلف اعزازت سے نوازا ہے ایک ایسی شخصیت کہ جس نے ایشیاء کی تاریخ کا رخ موڈ دیا اور سترہویں صدی عیسوی کی ایشیائی سیاست میں اہم ترین اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔۱۷۴۹ میں جب وہ برسراقتدار آئے تو آٹھ سال کے ایک قلیل مدت بعد۱۷۵۸ء میں معاہدہ” عدم مداخلت “طے پایا تو نصیر خان نوری کو بلوچ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اِس کام کو قومی ذمہ داری سمجھ کر بخوبی نبھایا۔

قوم نے انہیں ”نوری” اور ” ولی” کا خطاب دیا عثمانی خلیفہ نے انہیں ” غازی الدین ” اور ” ناصر ملت محمدیہ ” کے خطابات عنایت کیے اور ساتھ ہی “بیگلر بیگی” کا بلند مرتبہ خطاب انہیں ملا احمد شاہ ابدالی نے انہیں “برادر وفادار” کا لقب دیا ان کا نام آج بھی بلوچوں کے علاوہ دیگر اقوام کے دلوں میں زندہ ہے۔

عوام کو اقتدار اعلی کا مالک اور طاقت کا سرچشمہ سمجھنا اور قوم کو اسکا شعور دینا اور ان میں اپنی طاقت کا احساس پیدا کرنا دور اندیش قیادت کی بصیرت کا ضامن ہوتا ہے، مولائی شیدائی نے نصیر خان بلوچستان کو بسمارک(جرمن سیاست دان جس نے جرمنی کو متحد کیا تھ) سے تشبیہ  دی اور شاہ محمد مری نے نصیر خان کو خان اعظم کے بجائے بلوچوں کا پیٹر اعظم گردانا، عبدالقادری لغاری لکھتے ہیں کہ ” وہ اپنے قول کا اس قدر پکا ہے کہ کوئی ایسی مثال نہیں دی جاسکتی جہاں اس نے ادنی سے وعدے کو توڑا ہو یا تھوڑنے کی کوشش کی ہو ”۔

شاہ محمد مری لکھتا ہے کہ میر نصیر خان نوری تاریخ میں پہلا بلوچ خان (حکمران) تھا جس نے اپنی قوم کیلئے ایک باقاعدہ قسم کا نظام حکومت قائم کرلیا اس نے اپنے زیر اثر تمام قبائل کو بلوچ کنفیڈریسی کی شکل دی اور سربراہان پر مشتمل بلوچی مجلس  پارلیمنٹ کی بنیادرکھی۔منصور کنڈی کے بقول
”Khan Naseer Khan Nuri was a strong ruler and founder of the Baloch confederacy”
نصیر خان نوری دور قیادت میں پنتالیس سالہ دورِ حکومت بقول ایک ممتاز مورخ بلوچستان کا ایک سنہری زمانہ تھا، میر نصیر خان کے عہد میں میرو میروانی بلوچ کے دستور کے مطابق سردارکا انتخاب قبیلہ کرتا تھا اور سردار عموماً قبیلے کے سیاسی، سماجی اور قبائلی حوالے سے قابل ترین افراد کا چُنا جاتا تھا، نصیر خان نے بطور والی قلات اپنا لوہا منوایا اور ایک بہترین فوجی نظام ترتیب دے کر خطے کی سیاست میں ایک اہم محور کے طور پر نمودار ہوئے،اس فوج نے ملک کے اندر اور احمد شاہ کی امداد کے طور پر لاجواب کارنامے سر انجام دیے وہ ہر موقع پر فتح کی علامت تصور کیے جاتے تھے۔خان نے اپنی دوراندیش حکمرانی اورسرداروں کی مدد سے بلوچ ریاست کو وسیع پیمانے پر پھیلایا اور زرعی ترقی دے کر بغیر کسی تضاد کے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی، انہوں نے ایک منظم حکومت کی بنیاد رکھی جس کی اپنی فوج اور اپنا انتظامی ڈھانچہ موجود تھا اور اسکی ریاست کی باقاعدہ جغرافیائی حدود متعین تھیں، جب ایک موقع پر احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان سے بلوچستان کے حدود کے بارے میں پوچھا تو نصیر خان نے بلا توقف جواب دیا کہ” جہاں تک بلوچی بولی جاتی ہے وہاں تک بلوچستان کے حدود ہیں ”۔

نوری نصیر خان کو اپنے دور حکومت میں اِس عہد کے عظیم حکمرانوں میں شمار کیا جاتا تھا لیکن انکی شخصیت مختلف محرکات میں متنازعہ بنی ہوئی ہیں، اپنے سگے بھائی کے قتل اور مکران کے بلوچ عوام کو مذہبی جنون کے نام پر خونزیر وحشیانہ قتل عام کرنے سے لیکر احمد شاہ ابدالی کی حکم و فرمانبرداری میں غیر مفاداتی جنگوں میں بلوچ قوم کو بطور سپاہی استعمال کرنا اور مکران پر حملہ کرنے جیسے واقعات عمومی عوامی مفادات کے برعکس ہیں۔

فاروق بلوچ کتاب کے ایک حصے میں لکھتے ہے کہ “بیشتر مورخین مکران پر نصیر خان کے حملوں کو مذہبی رنگ دیتے رہے لیکن کسی نے مکران کے جغرافیائی، سیاسی، معاشی اور عسکری وجوہات بیان نہیں کیے، جبکہ دوسری جانب میراحمد یار خان کی اس تحریر نے شک وشہبات کو جنم دیے ”
میر احمد یار خان لکھتے ہیں کہ ” جب میر نصیر خان اعظم کو عالم خواب میں حضرت حضور پاک کا شرف دیدار نصیب ہوا اور آقائے نام دار نے اس کو مکران پر حملہ آور ہو کر دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور زکریوں کی بیخ کنی کا حکم صادر فرمایا،  انہوں نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ زکریوں کا قتل عام کرے اور خود سیاہ ماتمی لباس پہنا اس طرح اپنا تمام غصہ نہتے عوام پر اتارا،  کئی دنوں کی وحشیانہ قتل عام کے بعد نصیر خان نے واپسی کی راہ لی “

مذکورہ واقعہ کسی بھی حوالے سے حقائق اور دلائل پر مبنی نہیں اور کسی بھی طور پر صداقت کی گُنجائش نہیں ہے، ہمیں دور اندایش ہوکر سوچنا ہوگا کہ دنیا کا کوئی بھی باشعور حکمران مذہب کے نام پر خوابوں کی تعبیر کو اہمیت نہیں دیتا ہے، یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نصیر خان نوری کے اندرونی پالیسی و منصوبہ بندی مکران پر اپنی آمریت پسندی اور مذہبی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں،اس حوالے سے مورخین ایک واقعے کا ذکر کچھ اِس طرح کرتے ہیں کہ” ایک دفعہ نصیر خان نے مکران کے بارے میں کہا تھا کہ مکران ضرور فتح کیا جائے گا ” یہ الفاظ اس بات کی غمازی ہیں کہ نصیر خان بہت پہلے ہی مکران کو فتح کرنے کا عزم کرچکے تھے لیکن مکران میں اتنی خونریزی اور وحشیانہ پن کا مظاہرہ یقینا نصیر جیسی عظیم اور طاقتور شخصیت پر ایک داغ ہے، لیکن اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مکران پر حملے اپنی نوعیت کے اعتبار سے کسی عظیم مقصد کے پیشین گوئی سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔

اس مکمل کتاب میں نصیر خان نوری احمد شاہ ابدالی کے خاص سپاہی اور فرمانرواکے طورپر جانے جاتے ہیں، بعض مورخ اسکو احمد شاہ کے سپاسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔گنڈا سنگھ کے بقول” احمدشاہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ نصیر خان کے خلاف فوج کشی کرے کیونکہ اس نے نصیر خان کو ہمیشہ ایک عزیز دوست، فرمانبردار ساتھی اور بہادر سپاہی کی حیثیت سے دیکھا تھا”۔ فکری سوچ خیالات و حقائق ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ حکمران ہمیشہ دوسروں کی غلبہ اور قبضہ گیر قوتوں سے آزاد ہوتے رہے لیکن اس کتاب میں مصنف اس بات کو باوثوق انداز سے کہنے میں حق بجانب سمجھتا ہے کہ نصیر خان نوری جانب دار ہوتے ہوئے احمد شاہ کے مفادات کا پاسدار بن کر پانی پت میدان جنگ میں مرہٹوں کی خون سے سرخرو ہوئے اور، اس جنگ میں دس ہزار بلوچ شہید ہوئیں، ان شہید غازیوں کی شجاعت کے طفیل احمد درانی تخت دہلی پر متمکن ہوئے۔

فاروق بلوچ لکھتے ہیں نصیر خان نے اپنے ہی علاقوں کا حکمران بننے کو احمد شاہ ابدالی کا احسان سمجھ کر شدید غلطی کی اور بعد ازاں بغیر کسی مقصد کے احمد شاہ کی فوجی مدد کرکے خود اپنے آپ کو تاریخ عالم میں متنارعہ شخصیات کے فہرست میں شامل کیا۔

حرف آخر
اس کتابی خلاصے کا مقصد قارئین کا مذکورہ کتاب کے بارے میں توجہ مبذول کرنا اور اُن تمام عوامل سے مقصود کرانا تھا جو خوانین بلوچ کو سترہویں صدی میں متحمل ہونا پڑا تھا،اس سلسلے میں اِس بات کو دوبارہ دہرانے کی حاجت کروں گا کہ زیرِ نظر خلاصے میں زیادہ تر جن موضوعات پر توجہ دی گئی وہ نصیر خان نوری کے قیادت میں ہونے والے اہم سیاسی کارناموں، دور اندیش فیصلوں، بلوچ قوم کو ایک متحدہ فیڈریشن مہیا کرنے میں اُن کا کردار اور مختلف واقعات کو لیکر مورخین کا اُن کی شخصیت پر الزام تراشی اور ان الزامات کی صداقت جیسے موضوعات زیرِ بحث رہے، نصیرخان نے بلوچ ریاست کی تشکیل اور عوام کے فلاح و بہبود کو منظم انداز میں قائم رکھا اور ریاستی انتظامیہ کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں جتے رہ کر ریاستِ قلات کوجدید اورمضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی، یہ امر واضح ہے کہ مورخین کی جانب سے اُن پر چاہے جس طرح کی الزام تراشی کیجائے،اُن کے کردار پر جس طرح سے بھی کیچڑ اچھالا جائے اوراُن کے اعمال کو چاہے جن عوامل پر مسخ کیا جائے نوری نصیر خان کو تاریخ ہمیشہ ایک تاریخ ساز شخصیت کے حیثیت سے جانے گی اور آج بھی بلوچ قوم پرستوں میں نوری نصیر خان ایک عظیم کردار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں،حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نوری نصیر خان نے مکران پر مذہبی جنونی کے طور پر حملہ کرنے کے باوجود بلوچ کو ایک منظم ریاست کی شکل میں پرویا اور احمد شاہ ابدالی کی تابعداری کرنے کے باوجود ہمیشہ بلوچ مفادات کو ترجیح دی، افغانون کیساتھ مل کر پانی پت جنگ میں شریک ہو کر اور مذہب کے بنیاد پر کسی غیر قوم پر یلغار ہونا نوری نصیر خان کے کردار پر ایک دھبے کی مانند وجود رکھتا ہے جسے کسی بھی دلائل سے جھٹلایا اور پاک نہیں کیا جاسکتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔