غلامی، گوگی اور ہم – واھگ بزدار

521

غلامی، گوگی اور ہم

تحریر: واھگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

یہ وہ دور تھا جب اجتماعی طور پر لوگوں کو لاپتہ کرکے ٹارچر اور قاتل کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اُن سے اُن کی زمین پر ایک درآمد کی طرح سلوک کیا جاتا تھا۔ جو کبھی اُس زمین کے مالک ہوا کرتے تھے۔ وہ اُسی سرزمین پر کسی غیر کی نوکری کررہے ہوتے ہیں۔ اس دوران ایسے پیغمبرانہ صفت لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ جو غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا درس دیتے ہیں اور لوگوں کے بیچ موجود ہو کر دشمن پر وار کرتے ہیں اور اپنی آزادی کو یقینی بناتے ہیں۔ تاریخ ان کو فینن، مینڈلا، ہوچی منہ، کاسترو، ماوزے تنگ، بھگت، گاندھی، چیرمین غلام محمد، استاد اسلم، شہید صباء، بابا خیر بخش اور گوگی کے نام سے یاد کرتی ہے۔

واجہ گوگی بھی ان غلاموں میں سے ہیں۔ جنہوں نے برٹش حکومت کے قبضہ کے خلاف مختلف ناولز اور آرٹیکل اور کتابیں لکھ کر کینیا کے لوگوں کو بغاوت پر اکسایا۔

واجہ جیمز گوگی 5جنوری1938 کو افریقہ کے شہر کینیا میں پیدا ہوئے۔ جو اُس وقت برطانوی حکومت کے قبضہ میں تھا۔ گوگی نے بہت قریب سے انگریزوں کے ظلم و جبر کو دیکھا اور ان کے خلاف لکھنے کا ارادہ کیا۔

گوگی کی سب سے پہلے کتاب “Weep not child” ہے. جو 1964 میں شائع ہوئی اس نے اپنے طالب علمی کے دوران تین کتابیں لکھیں۔ جن کے نام درج ذیل ہیں۔
‏1.weep not child
‏2.The River Between
‏3. The Grain of wheat
‏4.Detained

گوگی ایک عظیم رائٹر، تنقدنگار ہیں۔ جن کو اُن کی کتابوں کی شہرت کی بنیاد پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔
گوگی چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ جو افریقی سماج کے سیاسی، معاشی، سماجی، مذہبی اور مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ گوگی کی تمام تصنیفات قبضہ گیریت اور اس کے کارناموں اور غلاموں کے نفسیات، جدوجہد پر مشتمل ہیں۔

گوگی ذکر کرتا ہے کہ جب یورپین افریقہ آئے تو انہوں نے افریقی ادب اور کے تہذیب کو مسخ کیا اور وہ اپنے ساتھ اپنا ایک ادب اور تہذیب لائے، گوگی اس کو کالونیز ادب کا نام دیتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اپنے بچوں کے نام بھی یورپین رکھے کیونکہ بقول گوگی کے وہ نام غلاموں کے لیے مقدس تھے۔ گوگی کے والدین نے بھی گوگی کا نام جیمز گوگی رکھا۔ جسے بعد میں گوگی نے جیمز کو اپنے نام سے کاٹ دیا۔ کیونکہ جیمز ایک یورپین نام تھا اور گوگی نے انگریزی میں لکھنا چھوڑ کر اپنی زبان میں لکھنا شروع کیا۔ بقول گوگی کے قبضہ گیر کے ہر چیز سے دستبرداری اور نفرت ہی قوموں کو ان کی آزادی کی جانب لے جاسکتی ہے۔

گوگی کا ایک بھائی ماؤ گوریلا کمانڈر تھا۔ جو پہاڑوں میں دشمن کے خلاف جنگ کر رہا تھا۔ اس کے پاداش بھی گوگی کے ماں کو زبردستی اغوا کرکے 3 ماہ تک ریاستی ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دی جاتی رہیں اور گوگی کا ایک اور بھائی جو بہرا تھا۔ برٹش فوج نے آپریشن کے دوران اُس کو بھی شہید کردیا بقول گوگی کے جب قبضہ گیر کسی قوم کے علاقوں پر قبضہ کرتا ہے تو وہاں عوام کو اُن کی ہر چیز سے دستبردار کرتا ہے اور اُن سے اُن کی زمین پر نوکر جیسا سلوک کرتاہے۔ یہاں مجھے پیغمبر بلوچ بابا خیر بخش مری کی وہ بات یاد آتی ہے۔ جہاں پر وہ کہتے ہیں کہ غلامی کے خلاف جتنا دیر سے اُٹھے تو یہاں کا مالک کوئی اور ہوگا اور بلوچ اپنی سرزمین پر چوکیداری اور برتن دھونے کا کام کر رہے ہونگے اور یہ حقیقت ہے بلوچستان سرزمین پر آج بلوچ چوکیداری اور برتن دھونے کا کام کر رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال گوادر ہے۔ جہاں پر اگر کوئی بڑا لیول کا پوسٹ آتا ہے تو ان کے لیے پنجاب یا پختونخوا کے لوگوں کے ڈومیسائل مانگتے ہیں اور چوکیداری کے لیے جب پوسٹ دی جاتے ہیں تو ان کے لیے گوادر کا ڈومیسائل ہونا لازمی ہے۔

گوگی weep not child میں لکھتا ہے کہ جنگ کے دوران کس طرح سے قبضہ گیر نے افریقہ کے لوگوں کو افریقی لوگوں کے خلاف استعمال کیا۔ اُن کو زمین اور کاروبار دیا اور ان کو آزادی پسندوں کے خلاف استعمال کیا۔ جس کی واضح مثال اس کتاب میں جیکب کی ہے۔ جس نے ماؤ ماؤ گوریلا فائٹرز اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کو لاپتہ اور شہید کروایا۔ جس طرح سے بلوچستان میں پاکستانی فوج نے کچھ بلوچوں کو خرید کر ان کو اپنے قوم کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ جن کے چہرے کسی بھی طرح قوم سے ڈکھے چُھپے نہیں اور وہ چند پیسوں کے عیوض اپنے لوگوں کو قتل اور اغوا کرواتے ہیں۔

گوگی اپنی کتاب Petals of blood میں لکھتا ہے کہ غلامی اپنے ساتھ انفرادیت)(individualism کی بیماری بھی ساتھ لاتی ہے۔ جس سے لوگوں کے اندر سے قومی اور انسانی احساسات ختم ہو جاتے ہیں اور وہ صرف اپنے پیٹ پوجا کے لیے سوچتے ہیں۔ باقی کس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ جان کر بھی انجان بنے رہتے ہیں۔

گوگی مزید لکھتا ہے کہ غلامی کے دور میں ایک جانور کی اہمیت ایک زندہ انسان سے زیادہ ہوتی ہے کہ افریقہ میں لوگوں نے بکری کے عوض اپنی بیٹیاں بیچی ہیں۔ کیونکہ قبضہ گیر نے ان کے معاشی حالات اس طرح سے کیا کہ وہ مجبور تھے ایسے قدم اٹھانے پر اور ان کے بیٹیوں کو ایک sex toys کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

اس طرح ایک ویڈیو جنرل شروف مری کا میرے سامنے سے گذرا۔ جہاں پر قصہ کرتے ہیں کہ “بلوچ خواتین کو اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو آرمی نے اغوا کیا اور ان کو لاہور کی منڈیوں میں بیچا گیا۔ بقول جنرل کے میں نے خود بلوچ بیٹوں کو خرید اور ان کے والدین کے حوالے کیا۔”

گوگی چرچ پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ چرچ ایک نئے ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ جس کا مقصد ہے کہ لوگوں کو مزید اور اچھے طریقے سے غلام رکھا جا سکے اور مزید لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھا جاسکے۔ بقول گوگی ان کے پاس بندوق تھا اور ہمارے پاس بائبل لیکن بائبل کے مقابلے میں بندوق زیادہ طاقتور تھی اور وہ ہمیں غلام بنا گئے۔ اسی طرح اگر بلوچستان میں دیکھا جائے تو مذہبی شدت پسندی، تبلیغ، مساجد کا آج کل اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ذکری اور نمازی کے درمیان اختلاف زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان سب کا مقصد قوم کی توجہ کو کسی اور سمت میں مرکوز کرنا ہے تاکہ بلوچ اپنے حقیقی مسئلے پر توجہ نہ دے سکیں۔

واجہ گوگی مزید ذکر کرتے ہیں کہ قبضہ گیر لوگوں کو ترقیاتی کاموں کے نام پر دلاسہ دے کر ان کی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں اور غلام قوم آقا کے اس عمل کو ایک اچھا اور نیک عمل قرار دیتے ہیں۔ بقول گوگی جب برطانوی لوگ almorog گاؤں آئے اور کہا کے ہم یہاں روڈ کا کام شروع کرنے آئے ہیں۔ جس سے اس گاؤں کی تقدیر بدل جائے گی۔ لیکن ہوا یہ کے ان کے جنگلات اور وسائل کو لوٹ کر چلے گئے اور قوم دیکھتی رہ گئی۔ اس کی واضح مثال آج بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینا ہے اور اپنے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ لیکن قبضہ گیر کا واضح مقصد وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہے۔ بقول ایک پاکستانی فوجی جنرل کے ہمیں بلوچستان کی زمین چاہیئے بلوچی نہیں۔ بقول بابا خیر بخش کہ “اس کو ضرورت کیا ہے۔ ہمیں ترقی دینے کی وہ تو اس ترقی کے نام پر ہمارے استحصال کرنے کو آیا ہے۔”

بلوچ قوم کو قبضہ گیر کے طرف سے پالیسیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے. تاکہ آنے والے دنوں میں بلوچ قوم اس دشمن کا مقابلہ کرسکے۔ ہمیں دنیا کے ان ممالک کی تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے دشمن کی پالیسی کو بھانپتے ہوئے اس پر وار کیا اور اپنے آزادی کو یقینی بنایا. غلامی اس دنیا کے کسی بھی کونے میں بھی ہو لیکن اس کی شکل ایک جیسی ہے کیونکہ انسان چاہے جس براعظم پر ہو اس کی فطرت ایک جیسی ہوتی ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔