عورت ، انسانی تہذ یب کا موجد و پاسبان
تحریر: خالق بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
موجودہ انسانی تہذیب و تمدن یکسر وجود میں نہیں آئی، بلکہ تہذیب کی موجودہ شکل میں آنے میں ہزاروں لاکھوں سال لگے تب جاکر مختلف ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد انسانی تہذیب و تمدن اس شکل و صورت میں پروان چڑھا، قدیم انسانی تہذیب کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کا تہذیب کے دائرے میں آنے سے قبل مشترکہ قبائلی و مضبوط خاندانی نظام وجود نہیں رکھتا تھا اور قدیم انسان منصوبہ بند شہری علاقوں میں رہنے کے بجائے، دور دراز اور الگ تھلگ رہتے تھے، زرعی پیداوار اور دیگر روزمرہ کے آلات بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، دونوں جنسوں یعنی مرد و عورت کا گزر بسر شکار پر تھا اور عورت بھی مرد کے سہارے سے آزاد خود ہی شکار پر جاتی اور اپنا پیٹ پالتی تھی، یہ وہ دور تھا جس کو فطرت کی زندگی کہا جاتا ہے جب انسان دوسرے جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتا تھا، لیکن پھر یہ عورت ہی تھی جس نے انسانی تہذیب کا بنیاد رکھا اور مختلف جنگلی جانوروں کو گھر میں لاکر پالتو جانور پالنے کا رواج ڈالا اور مرد وہ آخری جانور تھا جس کو عورت نے فطرت اور حیوانی زندگی سے نکال کر گھر میں لایا اور تہذیب کے دائرے میں شامل کرلی، لیکن پھر تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس مرد کو عورت نے حیوانی زندگی سے نکال کر تہذیب سے روشناس کرایا تھا اسی مرد نے عورت پر غلبہ حاصل کرکے اسے غلام بنا دیا، انسانی تہذیب ارتقاء کے مختلف منازل طے کرتا ہوا ترقی کرتی گئی یہ انتہائی اہمیت کا حامل ایک حقیقت ہے کہ انسانی تہذیب کی ارتقائی ترقی کے عمل میں مرد اور عورت کا کردار یکساں اور برابری پر مبنی تھا اسی جنسی برابری کی وجہ سے تہذیب موجودہ شکل میں سامنے آیا ہے،جب انسان زرعی پیداوار کرنے لگی اور وسائل کا ارتکاز شروع ہوا تو عورت کو بھی ایک ملکیت کی حیثت سے ذاتی ملکیت کے طور پر سمجھا جانے لگا اور بعد میں عورت کو تقریباً ہر سماج میں ادنیٰ حیثیت والی جنس گردانا گیا اور ادنیٰ سلوک روا رکھا گیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔
اس سال آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقعے پر عورت مارچ کی اتنی مخالفت ہوئی جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہے یہاں تک کہ مارچ کے شرکاء پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شدید پتھراو بھی کیا گیا، ان واقعات سے ہمارے معاشرے میں عورت کے لئے جو امتیازی سوچ رکھا جاتا ہے وہ زیادہ شدت کے ساتھ بے نقاب ہوا،عورت کے ساتھ جو ظلم اس معاشرے میں واقعہ ہوتا ہے یہ دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ لاکھوں، کروڑوں عورتیں یہ تمنا رکھتی ہونگی کہ کاش وہ اس معاشرے میں عورت پیدا نہیں ہوتے کیونکہ عورتوں کے ساتھ ہر جگہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ میں عورتوں کو 25 فیصد نمائندگی تو ملی ہے مگر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک بھی خاتون جج نہیں ہے اسی طرح ہائی کورٹس میں بھی شاہد ایک دو خاتون ججز ہوں مگر ادھر بھی ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، سرکاری ملازمتوں، کارپوریشنز، اعلیٰ تعلیم تک رسائی،کاروبار غرض زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کو ان کی آبادی کے نسبت سے وہ حقوق حاصل نہیں جو ان کا حق بنتا ہے، غیرت کے نام پر سینکڑوں خواتین ہر سال بے دردی سے قتل ہوتے ہیں، غربت کے ہاتھوں عصمت دری کے عذاب میں عورت کو روز روحانی موت مرنا پڑتا ہے، عورت کی وجود کو مرد کے سہارے کا محتاج بنا دیا گیا ہے، گھریلو محنت و مشقت عورت کا واحد کردار ٹھہرایا گیا ہے، بازاروں، دفتروں اور تعلیمی اداروں میں لیڈز فرسٹ کی باتیں کرنے والے عورت کی وقار کو نہیں بلکہ جسم کو دیکھ کر ایسے منافقانہ عزت دینے کی ڈرامہ بازی کرتے ہیں، سیاست میں عورت کی شمولیت نہ ہونیکے برابر ہے، سیاسی پارٹیاں عام انتخابات میں کتنی عورتوں کو جنرل نشستوں کے لے ٹکٹ جاری کرتے ہیں، مخصوص نشستوں کے علاوہ خواتین کو جنرل نشستوں پر بھی الیکشن لڑنے کے لے پارٹیوں کو چاہئے کہ اپنے خواتین کارکنوں کو ٹکٹ جاری کریں، بلدیاتی اداروں میں خواتین کی برابری کی نمائندگی ہونے چاہیے مگر کتنے خواتین پچھلے بلدیاتی نظام میں میئر کی سیٹوں پر بیٹھیں تھیں، جواب نفی میں ہے، وفاقی و صوبائی کابینہ میں کم از کم کابینہ کے کل 25 یا 35 فیصد ممبران کو خواتین میں سے ہونی چاہیئے تھا مگر وہ بھی نہیں ہے، جب ہمارے سیاست دانوں، علمائے کرام اور نیم دانشور حضرات کو عورتوں کے ساتھ یہ سارے امتیازی سلوک نظر نہیں آتے تو ان کو محض میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں سے غصہ اور غیرت چھڑ جاتی ہے، حالانکہ انسانی حقوق کی تحفظ کے لے کام کرنے والی عالمی ادارہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بنیادی طور ہر اس نعرے کو اپنے عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کا حصہ بنا دیا یے جو تمام انسانوں مرد اور عورتوں دونوں جنسوں کے لے ہے، یہ انفرادی آزادی کی فروغ اور تشدد و ہراساں کیے جانے کے مجرمانہ اقدام کو روکنے کے لے کہا گیا ہے، بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں جس طرح ایک عورت کو انسان سمجھنے کے بجائے اس کی جسم کو دیکھا جاتا ہے، اس نعرے پر اعتراض بھی اسی سوچ کی غمازی کرتا ہے، لوگ اس نعرے کو ایک بنیادی انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کرنے کے بجائے اس کو بے حیائی کے فروغ سے تعبیر کرتے ہیں مگر مسئلہ اس نعرے میں نہیں ہماری سوچ میں ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔
رواں ماہ تین تاریخ کو جدید ترکی کے بانی لیڈر کمال اتاترک کی سیکولر ملک میں بائیں بازو کی ایک انقلابی ثقافتی گروپ یورام کے 28 سالا خاتون کامریڈ ہلین بولک نے رجعت پسند رجب طیب اردگان کی فاشسٹ حکومت کی پابندیوں، چھاپوں، گرفتاریوں، تشدد و قید بند کی کاروائیوں کے خلاف غیر معینہ و نا قابل مصالحت جدوجہد کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی اور آخر وقت تک بھوک ہڑتال ختم نہ کرکے شہید ہوگئے، یہ جدید انسانی تاریخ میں ظلم و جبر کے خلاف ایک عظیم خاتون کی دلیرانہ جدوجہد کی اعلٰی مثال ہے جو انسانی تاریخ میں امر ہوگیا ہے، اس جدوجہد نے عورتوں کی عظمت پر رجعتی اور تاریک دور میں ایک مہر ثبت کردی ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ عظمت، بہادری، جرات جنس میں نہیں بلکہ انسانی جذبوں میں ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، کامریڈ ہلین بولک نے موت کو للکار کر گلے لگانے سے عورتوں کے کردار کو کمتر پیش کرنے والے رجعتی قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ تہزیب کو بنانے میں ہمارا بھی خون شامل ہے۔
رجب طیب اردگان کی رجعتی و فاشسٹ حکومت نے ثقافتی پروگراموں، میوزک و رقص پر پابندی لگا کر یورام گروپ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے، اور جواز یہ گھڑا گیا کہ میوزک اور رقص کی مذہب میں اجازت نہیں اور یورام ایک سیکولر پروگرام کا پرچار کرتا ہے، جہاں تک سیکولرازم کا تعلق ہے تو جدید ترکی کو بنانے والے مصطفٰی کمال اتاترک کوسیکولرازم کا عظیم پیروکار سمجھا جاتا ہے جس نے سلطنت عثمانیہ کی شکست خوردہ سامراج کے زیر تسلط ترک قوم کو سامراجیت سے چھٹکارا دلاکر ترکی کو ایک عظیم ترقی یافتہ ملک بنا دیا اور دوسرا الزام کہ میوزک اور رقص غلط ہیں تو جناب کیا چڑیا، طوطے، نہریں، خوبصورت آبشار، قدرتی نظارے اور فطرت و قدرت کے دوسرے نظارے رقص نہیں کرتے، گانا نہیں گاتے، سانپ کیوں جوگی کی بینڈ ہر رقص کرتا ہوا موت کی پروا کیے بغیر جوگی کے پاس پہنچ جاتا ہے، میوزک اور رقص قدرت کی خوبصورت ثقافتیں ہیں جو انسانوں کے ساتھ جانور و بے جان قدرتی نظارے بھی خوش رہنے کے لے گاتے ہیں اور جھومتے ہیں۔
قدرت کے ثقافتوں و دستوروں پر قدغن لگانے والے یہ درندے انسان کی حقیقی آزادی کو التواء میں تو ڈال سکتے ہیں مگر روک نہیں سکتے،کیونکہ اس نظریے کو روکا نہیں جاسکتا جس کا وقت آرہا ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔