عوام کو لگنے والی تھپڑ
تحریر : خالق بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اخبارات اور سوشل میڈیا پر کل سے ایک خبر گردش کررہی ہے کہ بلوچستان حکومت کے ایک وزیر نے کسی محکمے کے سیکرٹری کو ان کے دفتر میں تھپڑ مار دیا ہے، سننے میں آرہا ہے کہ اس تھپڑ کے بعد حکومت میں شامل وزراء اور بیوروکریسی کے الگ الگ اجلاس ہوئے ہیں، جہاں پر انہوں نے تھپڑ مارنے کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال و دیگر معاملات پر بات چیت کی ہے اور کہا جارہا ہے کہ سیاسی قیادت اور بیوروکریسی میں اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں اور وہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں، بیوروکریسی کسی دور میں بہت ہی طاقتور تصور کی جاتی تھی اور عمومًا کوئی وزیر اتنے بڑے لیول کے بیوروکریٹ پر ہاتھ اٹھانے کی جرات بھی نہیں کرسکتا تھا، لیکن اچانک سے یہ کیا ہوگیا کہ قانون پر عملداری کرنے والے حکومت کے ایک اہم ستون اس حد تک گر گیا ہے جہاں اب تھپڑ مارنا جیسے واقعات معمول بن گئے ہیں۔
بلوچستان میں نظام حکومت انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے، اٹھارویں ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ میں وسائل کی وفاق و صوبوں میں تقسیم کے طریقہ کار کی سبب صوبوں کے پاس زیادہ مالی و انتظامی اختیارات آگئی ہے، لیکن اس کا فائدہ بد قسمتی سے عوام کو نہیں مل رہا، گذشتہ دنوں وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے پی ٹی آئی کے کور کمیٹی اجلاس جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان کررہے تھے میں یہ بتایا کہ صوبوں کے پاس وفاق کی نسبت زیادہ مالی وسائل ہیں مگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ بادشاہ بنے ہوئے ہیں اور ان کی کارکردگی نہ دکھانے کی وجہ سے وفاقی حکومت بد نام ہورہی ہے، فواد چوہدری اس سے قبل بلوچستان حکومت کو ملنے والی اربوں روپے کا کوئی حساب کتاب یا زمین پر ان سے بنے اسکیمات کے وجود نہ رکھنے کا بھی اظہار کرچکے ہیں، فواد چوہدری سے لاکھ اختلاف کے باوجود یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ گذشتہ ادوار میں وفاق سے بلوچستان کو ملنے والی خطیر فنڈز میں خردبرد اور اس فنڈز کا عوام کی ترقی پر کچھ بھی خرچ نہ ہونے اور صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ میں وفاق کی نسبت زیادہ مالی وسائل ملنے کا بیانیہ معقول اور بالکل درست ہے کیونکہ یہ حقائق ہیں اور ان کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
بلوچستان کا رواں مالی سال کا بجٹ تخمینہ 419 ارب روپے ہے جس میں سے 339 ارب روپے وفاق سے این ایف سی میں طے کردہ فارمولے کے تحت ملیں گے جبکہ باقی ماندہ رقم حکومت اپنے ماحصلات سے اکٹھا کرے گی، مجموعی بجٹ میں سے 26 ارب ترقیاتی منصوبوں اور 257 ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات کے لے مختص کئے گئے ہیں، تعلیم کےلیے 60 ارب اور امن و امان کے لے 44.6 ارب روپے مختص ہیں۔
بلوچستان کی لگ بھگ ایک کروڑ تیس لاکھ آبادی کے لئے 419 ارب کو اگر صحیح معنوں میں اور صاف شفاف طریقے سے خرچ کیا جائے تو بلوچستان کے کچھ اہم اور فوری نوعیت کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے جس میں پینے کی پانی کا قلت، بے روزگاری کا خاتمہ ، معیاری تعلیم تک وسیع آبادی کو رسائی دینے، صحت کی سہولیات کی فراہمی، انفراسٹرکچر کی تعمیر، زراعت کو فروغ دینے، ٹرانسپورٹ کی سہولیات، بجلی کی فراہمی، شہری علاقوں میں نکاسی آب اور دیہی بلوچستان کے عوام کو ترقی کی مساویانہ سہولت و موقعے فراہم کیا جاسکتا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ 400 ارب سالانہ وسائل ملنے کے باوجود بلوچستان کی وسیع آبادی پتھر کے دور میں رہتا ہے، صوبے کی لگ بھگ 70 فیصد آبادی دیہاتوں جبکہ 30 فیصد سے کچھ زیادہ آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے، بلوچستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی قرون وسطیٰ جیسی ہے، ہر سال سینکڑوں خواتین زچگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. بچے شدید ترین غذائی قلت کا شکار ہیں، بھوک، پیاس، جہالت، لاکھوں انسانوں کا مقدر بن چُکا ہے.
بلوچستان کے شہری علاقوں میں بھی رہنے والے لوگوں کی معیار زندگی اتنی زیادہ اچھی نہیں، مفت تعلیم، معیاری صحت کے سہولیات، بجلی کی مناسب فراہمی، روزگار کے مواقعے، مناسب منصوبہ بندی پر مشتمل گھروں و ررہائشی کالونیوں کی تعمیر، نکاسی آب سمیت لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں، ہسپتالوں میں آپ کو بنیادی ادویات تک نہیں ملتے، سرکاری تعلیمی اداروں میں کوئی اپنے بچوں کو داخل کرنے کا رسک نہیں لیتا، ان مسائل سمیت بے شمار دوسرے مسائل سے لوگ دوچار ہیں۔
پورے بلوچستان میں موٹروے جیسا ایک بھی سڑک نہیں، لوگوں کو معیاری ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں، سانپ و باولے کتے کے کاٹنے کا ویکسین تک ہسپتالوں میں دستیاب نہیں، ہزاروں سرکاری ملازمین گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں جن سے کام لیا ہی نہیں جاتا، متعدد سرکاری سکول، ہسپتال اور دوسرے سروسز میہا کرنے والے سرکاری دفاتر بند ہیں، بجلی صرف چند گھنٹوں کے لے ہوتی ہے، عدالتوں، پولیس تھانوں اور جیلوں میں انسانوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، منشیات کا کاروبار، رشوت ستانی، قانون کی پامالی روز کے معمولات ہیں۔
اس ساری دلخراش صورتحال کے باوجود حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان کو صوبے میں ہر چیز بہتر نظر آتا ہے، جبکہ لوگ جس زلت، کرب، تکلیف، تنگ دستی اور غربت سے گزر رہے ہیں اس کا مقامی اشرافیہ کو کوئی احساس نہیں نہ ہی ان کے پاس صوبے کے حالات کو بہتر کرنے کے لے کوئی منصوبہ یا ان کا کوئی نیت ہے۔
جب بلوچستان میں اس قسم کی حالات ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 419 ارب روپے سالانہ کا فنڈز آخر کہاں غائب ہوجاتے ہیں، اس سوال کا جواب جاننے کے لے زیادہ فلسفہ جھاڑنے کی ضرورت نہیں بس آپ یہ دیکھ لیں کہ سرکاری افسران تھوڑے ہی عرصے میں کیسے کروڑ پتی اور وزراء صاحبان کیسے ارب پتی بن جاتے ہیں، یہ دولت ان کے پاس آسمان سے من و سلویٰ کی صورت میں نازل نہیں ہوتا بلکہ یہی 400 ارب کے لگ بھگ بلوچستان کا سالانہ بجٹ ہے جن کو چھپانے کیلئے بڑے بڑے سرکاری گھر کبھی کبھار چھوٹے پڑ جاتے ہیں اور پھر پانی کی ٹینکی و باتھ روم وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
غریب صوبے کی وسائل اور دولت کو صرف سیاسی وزراء نہیں لوٹتے بلکہ بیوروکریسی اور وزراء دونوں ملکر اس پراگندہ عمل کو سرانجام دیتے ہیں، ان کو نیب، انٹی کرپشن اور انصاف و قانون کے اداروں اور صحافت جیسے اداروں سے کوئی خوف نہیں کیونکہ سب کو اپنا حصہ ملتا ہے اور ان کو پتہ ہے عوام کو میکاولی کی کتاب سے لی گئی اصولوں کے مطابق نعرے بازی و دیگر لیپاپوتی سے خوش رکھنا کتنا آسان ہے، اس لوٹ مار کے نظام میں آٹے میں نمک کے برابر کچھ دیانت دار افسران جب کرپشن کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں تو ان کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کا تھوڑے تھوڑے وقفے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ کرنا، کام کے دوران انکو مختلف حربے استعمال کرکے تنگ کرنا، ڈرانے کی کوشش کرنا، ان کی کردار کشی کرنے سمیت ان کو ایسی جگہ پوسٹ کیا جاتا ہے جو سالوں سے خالی پڑے ہوتے ہیں اور جہاں کوئی تعینات ہونے کے لے تیار نہیں ہوتا کیونکہ ایسی پوسٹنگ راشی افسران کے لئے غیر منافع بخش ہوتے ہیں، یہ جو تھپڑ والی عمل گذشتہ روز رونماء ہوا ہے یہ ایک ہی تھالی میں کھانے والے لوگ کبھی کبھار ایک دوسرے کو حصے میں اختلاف کی وجہ سے لگاتے رہتے ہیں لیکن ان کے اس تھپڑ سے وہ پیار والی تھپڑ زیادہ دردناک ہے جو وہ بلوچستان کے عوام کو صدیوں سے لگاتے آرہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔