طلبا تنظیموں کے درمیان سیاسی بیگانگی
تحریر: حاجی حیدر
دی بلوچستان پوسٹ
کارل مارکس کا فلسفہ بیگانگی جدید انسان کی صورتحال کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے. اسی بیگانگی کی وجہ سے آج بلوچ اپنے ہی علاقے میں ایک ڈائسپورا کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اور بیگانگی کی وجہ سے انسان اپنی ذات کی بھی نفی کر لیتا ہے جس سے inwardness اور collective Trauma جیسے بحران کا باعث بنتا ہے۔
حالیہ مزاحمتی تحریکوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی بھی ایک مسئلے کو اپنا مشترکہ مسئلہ نہیں مانتا اگرچہ آج نہیں تو کل سبھی اسی مسئلے کا شکار ہوں گے۔ بقول پاٶلو فرارے “Dehumanization” وہ چیز ہے جہاں انسان کی اپنی سوچ غائب ہوجاتی ہے اور master کی سوچ کو خوشی خوشی سے قبول کرنا اور فخر محسوس کرنا اس پر جس کو ھیگل “master & slave relationship ” کا نام دے دیتا ہے۔
بلوچستان میں طلبا وہ طبقہ ہے جو ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں۔ اس میں سماجی مجروحیت، تشدد ، لاپتہ ہونے اور مسخ شدہ لاشیں شامل ہیں۔
کیا کسی بلوچ کونسل سمیت کسی بھی طلبہ کی تنظیم کے دائرہ کار میں اس اجنبی پن کا کوئی حل ہے؟ کیا ہمارے قوم پرست قائدین ایک انقلابی ، سیاسی ، علمی طلبہ کی تنظیم کی چھتری کے تحت تمام طلباء تنظیموں کے اندر اسی بیگانگی کو ختم کر کے سب کو متحد کرسکتے ہیں؟
آج تک کیا بلوچ دانشوروں نے اس اجنبیت کے بارے میں ایک جامع مقالہ پیش کیا ہے؟ یا اب بھی وہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ کر دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہیں؟ آج سیاسی پارٹیوں کے درمیان اس بیگانگی کو دیکھ کر مجھے ساحر کی ایک نظم “پرچھائیاں” یاد آتا ہے “نہ دوستی، نہ تکلف، نہ دلبری، نہ خلوص کسی کا کوئی نہیں آج سب اکیلے ہیں” یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی فیروز بلوچ کو اپنا نہیں مانتا حالانکہ فیروز ایک نام سے زیادہ ہے اتحاد، ایک سیاسی رہنما، ایک intellectual Sound کارکن ہے۔
لہٰذا آج ہمارے سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو چاہیے وہ این جی اوز اور سرمایہ دارانہ نظام یا کسی دوسرے کیساتھ دست گریبان ہونے سے بہتر ہے اپنے اندر اس بیگانگی کو ختم کر کے ایک منظم طریقے سے مشترکہ جدوجہد کے ساتھ سامنے آئیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔