شہید لالا منیر بلوچ اور متعصبانہ رویئے – فراز بلوچ

747

شہید لالا منیر بلوچ اور متعصبانہ رویئے

تحریر : فراز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لالا منیر کو میں نے پنجگور کے ان گلیوں میں روتے ہوئے دیکھا ہے، جہاں سے اکثر لوگ گذرتے ہوئے اپنی آنکھیں یا تو بند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یا پھر اپنے چہرے کو چادر میں لپیٹ لیتے ہیں، تاکہ وہ بلوچ ماوں کی چیخ اور پکار کی وجہ سے نفسیاتی اثرات میں آکر تکلیف میں نہ رہیں، لالامنیر کو میں نے بلوچستان کے ان تمام علاقوں میں خون کے آنسو بہاتے ہوئے دیکھا ہے، جہاں جہاں فوجی آپریشنز اور ریاستی استحصال کی وجہ سے بلوچ کے گھر، ننگ و ناموسِ کی پامالی ہوئی، ڈیرہ بگٹی سے لیکر مند، خاران، بسیمہ سے لیکر کاہان، بولان، اسپلنجی، مستونگ، قلات، خضدار اور نوشکی سے برآمد مسخ شدہ لاش ہوں یا پھر کسی کی اغوا نما گرفتاری لالا منیر بلوچ پریس کلبز میں اکیلے ہوتے ہوئے بھی احتجاج کرتا ہوا نظر آتا تھا۔ وہ آج بھی مجھے اکیلے کھڑا نظر آرہا ہے، مگر اس بار لالامنیر بلوچ فوجی آپریشنز، بلوچوں کے گمشدگیوں ، مسخ شدہ لاشوں، گرفتاریوں کے خلاف چلاتے ہوئے نہیں بلکہ اپنی بے بسی کی فریاد کا اظہار کرتے ہوئے، اپنی کالی عینک، تسبیح اور بلوچی شال میں ملبوس، اکیلے گرمی کی تپش کو سہتے ہوئے کھڑا بلوچ قوم سے مدبرانہ سوال کر رہا ہے کہ وہ جگہ جہاں لالا منیر بلوچ کھڑے ہوکر احتجاج کرتے تھے، آج وہ جگہ کیوں ترس رہا ہے کہ کوئی آکر لالا منیر کا تاریخی اور سیاسی یاد تازہ کردے؟

شہید لالا منیر کے زندگی کی تمام ادوار ایثار پر مبنی ہونے کے باوجود بھی انتہائی مفلس اور افسردہ گذرے، اُس کے خون اور رگوں میں بلوچستان کی سیاست، بلوچ کی محرومیت، دوسروں کے گھر کے دروازے پر دستک دیتی ہوئی افلاس، باہر گلیوں میں گھومتے بچوں کے پھٹےجوتے اور کپڑوں سے ظاہر تنگ دستی کا عکس، قومی سطح پر ظالمانہ محکومیت نے کچھ اس طرح سے جگہ بنا لیا تھا کہ کئی قسم کے سیاسی مواقع اور پارلیمانی مفادات کو ٹھکرانے کے بعد منیر بلوچ کو بلوچ قوم کا لالا منیر بلوچ بننا پڑا۔

لالا منیر بلوچ کے نظریات میں ان طبقوں کا اثر تھا، جن کیلئے لالا منیر بلوچ نے دن رات وقف کر رکھا تھا، وہ حقیقی معنوں میں غریبوں کا لیڈر تھا، وہ ان تمام بلوچ بہن اور ماوں کا سہارا تھا، جو رات کی تاریکیوں میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کے اپنے بھائیوں اور بچوں کے بازیابی کیلئے آنسو بہاتے بہاتے چیخ اور پکار سے دل بہلاتے تھے۔ لالا منیر بلوچ صرف دشواری اور مشکل کے اوقات ہی میں پایا جاتا ہے، خوشی اور مسرت کے لمحوں میں شاید وہ یاد نہیں ہوا ہوگا، مگر بلوچستان کے جن جن کونوں میں غریب کو ہمدردی اور تعاون کی ضرورت ہوتا ہوگا تو لالا منیر بلوچ کو اپنا دائیں بازو پایا ہوگا۔

وہ ایک وقف شدہ لیڈر تھا، انتہائی کمیٹڈ اور اعتدال پسندانہ رویئے کا مالک تھا، جو صرف پرامید ہوکر سیاست سے منسوب سرگرمیوں کو بلوچ اور بلوچستان کے عوام کیلئے استعمال میں لانا چاہتا تھا اور کسی حد تک اپنی کاوشوں کی وجہ سے اس نقطہ نگاہِ پر کامیابی حاصل کی تھی۔

لالا منیر بلوچ کو میں نے بلوچستان کے ان ریگستانی علاقوں میں بلوچ کیلئے درد بانٹتا ہوا دیکھا ہے جہاں آج کوئی بھی جاتے ہوئے کتراتا ہے، مگر لالا منیر کو آپ اگر سیاسی حوالے سے مطالعہ اور جاننا چاہتے ہیں تو وہ ان غریب اور مفلسی سے جنگ لڑتا ہوا علاقوں اور خاندانوں میں تلاش کریں، جہاں مفلسی خود افلاس کا شکار محسوس ہوگا، بلکہ اپنی فطرت پر آنسو بہا رہا ہوگا۔

لالا منیر بلوچ کو اگر کوئی بھی پڑھنے کی کوشش کریگا تو اُسے سب سے پہلے تعصب، ضد، حسد، رنگ و نسل، قوم اور فرقہ، میر اور معتبر، سردار اور امیرزادہ جیسے القابات میں تعصبانہ نقطۂ نگاہ ترک کرنا ہوگا اور یا پھر اُن سے آزاد ہونا ہوگا، لالا منیر بلوچ جیسے سادہ فہم، استقلال اور استقامت سے سرشار سیاسی نمائندہ بہت ہی کم ابھرتے ہیں، مگر افسوس اس بات پر ہے، ہم اُنہیں پہچاننے سے قاصر ہیں، ہمیں وہ فہم اور نگاہ ہی میسر نہیں جو ایک لیڈر کو رنگ و ذات سے بڑھ کر پہچان سکیں۔

لالا منیر بلوچ کو میں نے اس کے اپنے سیاسی سرکل میں تعصبانہ رویئے کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا ہے، لالا منیر بلوچ بھی تمام تناظر سے آشنا ہوتے ہوئے کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوا، وہ ایک نا تھکنے والے انسان تھے، جسے صرف آگے بھڑنے اور ترویج کا منزل ہی دیکھنا پسند تھا، اسی لئے جب تک لالا منیر بلوچ گراونڈ میں موجود تھا، سیاست کر رہا تھا، ہر قسم کیےاحتجاج اور جلسے کی زینت بنا ہوا تھا۔ وہ ایک ایسا سیاسی لیڈر تھا جیسے ہر فرد کے غم اور مجبوری کا علم تھا۔ وہ پنجگور کے ہر گاوں میں نظر آتا تھا، کبھی کسی کی میت کو کندھا دیتے ہوئے تو کبھی کسی غریب کی عیادت کو اسپتال میں، مگر علاقائی تعصبانہ برتاؤ اور سلوک سے اجتناب کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کریں، کیا بلوچستان کی سیاسی معاشرے میں لالا منیر بلوچ کو اُس کے سیاسی لیول کی مطابق وہ کریڈٹ ملا جس کا وہ حقدار تھا؟ یا پھر علاقائی نقطہء نظر اپناکر لالا منیر کو پارلیمانی سیاست کا طعنہ دیکر ایک ناکام سیاستدان کے لقب سے منسوب کیا گیا؟ جو تقریباً اس کے اپنے ہی سرکل دوست عموماً ہوا کرتے تھے۔

لالا منیر بلوچ دن کی دھوپ میں پسینے میں اٹے جب پریس کلب کے سامنے پرزور اور گونجنے والی آواز میں تقریر کرتے ہوئے بلوچستان کے تمام شہیدوں کو جب سرخ سلام پیش کرتے تو وہیں رنگت کی وجہ سے لالا منیر بلوچ کو مزاحیہ اور متعصبانہ انداز میں نیلسن منڈیلا کا لقب دیکر مزاق اڑایا جاتا تھا۔ کوئی لالا منیر بلوچ کو بے وقوف، نالائق، کم عقل، کم نسل کے القاب سے مخاطب کرتا تھا۔

کہتے تھے جب ایڈوکیٹ کچکول بلوچ بلوچستان اسمبلی کا ممبر ہوا کرتا تھا تو لالا منیر کو اپنا پرسنل سیکریٹری بنایا لیکن پھر بھی یہ کچھ نا کرسکا، اب جب بی این ایم بانٹ کے نیشنل پارٹی میں ابھرا تو لالا منیر اب بلوچوں میں حقیقی قوم پرست کا نعرہ لگاکر سیاسی ریٹنگ کے چکر میں عوام کو بے وقوف اور دھوکے دیے رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔

اس بات کی وہ سیاسی دوست گواہی دے سکتے ہیں جو لالا منیر بلوچ کی سیاسی بصارت سے واقفیت رکھتے ہوئے بھی اُن حقیقی پہلوؤں کو دبا دینا چاہتے ہیں، اس بات سے وہ سیاسی دوست آشنا ہیں جو لالا منیر بلوچ کے پولیٹکل قریبی ساتھی ہوکر بھی آج لالا منیر کی یاد میں ایک مضمون لکھنے تک کو گوارا نہیں کرتے، صرف پنجگور اور مکران کا نہیں، لالا منیر وہ پہلا سیاسی لیڈر شمار تھا جس کو پورے بلوچستان کا غم کھائے جا رہا تھا، اس لئے تو بلوچستان کے کسی بھی حصّے میں ریاستی بربریت اور استحصالی دباؤ اور چہرے کو عیاں کرنے کیلئے اکیلے بھی ہوتا تو پریس کلب کا رخ لازمی کرتا تھا تاکہ اس کی آواز عوام تک پہنچ سکے کہ بلوچستان میں ریاستی مظالم میں کس حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مگر پورا پنجگور اس بات کی گواہی دے سکتا ہیکہ لالا منیر بلوچ کی جو سیاسی دوست بازار میں بیھٹک لگا کر سیاسی مباحث کا حصہ بنتے تھے، انہوں نے اس وقت لالا منیر بلوچ کا ساتھ نہیں دیا جب وہ پریس کلب پر احتجاج کا اعلان کرکے نکل جاتے۔ لالا منیر بلوچ کا ان مباحث سے نکلنے کے بعد وہاں بیٹھے کچھ سیاسی دوست اور عام لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ بڑا آیا بلوچستان کو آزاد کرنے والا۔۔۔

پہلے ہم نے سنا تھا، بلوچ مردہ پرست ہیں، کسی کی موت کے بعد اسے یاد کرتے ہیں یا پھر اسکی یاد سے منسوب وہ تمام یادیں قلم بند کرتے ییں تاکہ وہ تاریخ کا لافانی حصہ بن سکیں، مگر جب بھی مجھے لالا منیر بلوچ کا یاد آتا ہے تو مجھے لگتا ہے، بلوچ مردہ پرست بھی کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔ ورنہ لالا منیر بلوچ کو شہید کا درجہ دیکر اس کی یاد میں کچھ تو لکھ لیتے۔ مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے، لالا منیر بلوچ شہادت کا درجہ پاکر بھی آج نسلی تعصب، رنگ و ذات، سیاسی پسند اور ناپسند جیسی امتیازی رویوں سے لڑ رہا ہے۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔