شہید غلام محمد بلوچ، ایک ہمہ جہت شخصیت – امین بلوچ

1171

شہید غلام محمد بلوچ، ایک ہمہ جہت شخصیت

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

خود شناس انسان اپنے وجود کے سرمائے سے نہ صرف خود استفادہ حاصل کرتا ہے بلکہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی بہتر نشوونماء کرکے اپنے قوم کے لئے بھی جدوجہد کی راہوں کا تعین کرتا ہے۔ خود شناسی انسان میں ایک درد کو جنم دیتی ہے، جو اس کائنات کے دیگر ذی روحوں کا خاصہ نہیں بلکہ صرف اشرف المخلوخات کے حصے میں آیا ہے۔ وہ درد حقیقت کا درد ہوتا ہے۔ وہ درد غلامی کا درد ہوتا ہے،احساس کا درد ہوتا ہے۔ منزل کے حصول کا درد ہوتا ہے۔ یہ خود شناس انسان کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کا پردہ چاک کرنے کے لئے عملی جدوجہد کا حصہ بن کر حقیقی اجتماعی منزل کا مسافر بن جاتا ہے۔ ایک خود شناس انسان ہزارہا تکلیفوں کے باوجود شکست تسلیم نہیں کرتا بلکہ جہد مسلسل ہمت سے شکست کے منڈلاتے بادل کو ٹال دیتا ہے۔

چی گویرا سے لیکر بالاچ مری، بھگت سنگھ سے لیکر غلام محمد تک دنیا میں ایسے کئی انسانوں کا جنم ہوا جنکی زندگی درد اور تکلیفوں کی زندگی تھی جنکی مسلسل جدوجہد نے دنیا کے مظلوم و محکوم عوام کو درس دیا کہ آزادی کی کھٹن اور مشکل راہوں کا مقابلہ قربانی کے فلسفے کے بغیر ناممکن ہے۔

اس مختصر سے مضمون میں شہید غلام محمد بلوچ کا کردار عمل اور قوم سے محبت کی داستان کو سمونا ناممکن ہے کیونکہ انکی زندگی اور جدوجہد پر متعدد کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اس مختصر مضمون میں شہید غلام محمد کی حالات زندگی اور سیاسی عمل کا جائزہ لیکر یہ جاننے کی کوشش کرینگے کہ بلوچ سماج میں سیاسی عمل میں اداروں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ایک سیاسی رہنماء کو کس طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور شہید نے کس طرح ان عناصر کی بیخ کنی کرکے بلوچ قوم کو بلوچ نیشنل موؤمنٹ جیسی ماس پارٹی کا تحفہ دیا اور اس موضوع کو زیر بحث لانے کی کوشش کرینگے کہ بلوچستان کی سیاست غلام محمد کے بعد کن مشکلات سے دوچار ہے اور ان سیاسی بحران سے نکالنے کے لئے بلوچ آزادی پسند پارٹیوں اور تنظیموں پہ کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔

ابتدائی حالات:
شہید چئیرمین غلام محمد بلوچ یکم جنوری 1959 کو بلوچستان کے پسماندہ علاقے مند سورو میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں آپ کا نام میر نصیر خان نوری کے نام پہ رکھا گیا، جسے بعد میں تبدیل کردیا گیا۔ ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کرنے کے بعد مذید تعلیم کے لئے کراچی کا رخ کیا اور یہیں سے گریجویشن مکمل کرکے 1985 میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں داخلہ لے لیا۔

شہید غلام محمد کا جنم ایک ایسے وقت میں ہوا جب بلوچستان شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔ نواب نوروز خان ایوبی آمریت کے خلاف برسر پیکار تھے اور 1967 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی گئی تھی، ایک طرف ایوب خان و یحیی خان جیسے فوجی آمروں کی سفاکیت اور دوسری طرف بھٹو آمریت نے بلوچوں کو مسلح ہونے پہ مجبور کیا۔ ہر جگہ قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا تو ایسے حالات میں غلام محمد اور فدا بلوچ جیسے اساطیری کرداروں کا جنم ضروری تھا کیونکہ قدرت کے نظام میں ہر فرعون کے لئے موسی کا جنم ناگزیر ہوتا ہے۔آپ نے دو شادیاں کیں پہلی شادی 1986 میں جبکہ دوسری شادی 2000 میں کی تھی۔ آپکے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ آپ بچپن سے ہی حساس طبیعت کے مالک تھے اور آپ نے بچپن میں ہی غلامی کے درد کو محسوس کیا تھا۔

سیاسی زندگی:
شہید غلام محمد کی حساسیت اور بلوچ قومی جدوجہد سے متاثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جب آپ نے کم سنی میں اپنے ماں کو اپنا وہ یادگار نظم سنایا,,ماتی منی ساہ بدل پنتے چی آ ماتاں بزور،، اور اپنے افکار و خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ماں کو منوایا۔ تنظیم کے تربیتی پروگرامز میں آپکی شرکت اور سنجیدگی نے لوگوں کو خاصا متاثر کیا اس لئے شہید فدا نے آپکو مند زون کا جنرل سیکرٹری نامزد کیا۔1982 میں آپ کراچی زون کے جنرل سیکرٹری جبکہ 1984 میں صوبائی صدر کے عہدے پہ متمکن ہوئے اور آپ نے ان بھاری ذمہ داریوں کو بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دیا اور تنظیم کو فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کراچی میں ایم آر ڈی کے جلسے میں پولیس نے چھاپہ مار کر آپکو گرفتار کرلیا یہ سیاسی زندگی میں آپکی پہلی گرفتاری تھی۔

بی ایس او نے 1986میں اپنا آٹھواں کونسل سیشن منعقد کیا، جس میں آپکو مرکزی جونئیر وائس چئیرمین مقرر کیا گیا۔ اس سیشن کے اختتام پہ بلوچ سیاسی حلقوں میں قومی سیاسی پارٹی کی تشکیل پہ بحث و مباحثے کا آغاز ہوا۔ اس دوران بلوچستان میں بلوچ نوجوانواں کو تقسیم در تقسیم کرنے کا عمل متواتر جاری و ساری تھا، بی ایس او سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو ذہنی طور پہ مفلوج کرنے کے لئے نوکریوں کا جھانسہ دیا جارہا تھا اور انہیں مجبور کیا جارہا تھا کہ وہ پاکستان نواز پارٹیوں کا حصہ بن جائیں۔

قومی پارٹی کی تشکیل پہ کہور خان ٹولے کے اختلاف نے تقسیم کے مراحل کو اور تیز کردیا اس دوران بی ایس او سہب کا قیام بھی عمل میں لایا گیا لیکن شہید غلام محمد اور شہید فدا بلوچ کی کاوشیں رنگ لائیں جنہوں نے ہزاروں اختلافات کے باوجود جنوری 1987 میں بلوچستان نیشنل یوتھ موؤمنٹ کو قائم کیا جس میں حق خود ارادیت کے نکات کو اولیت دی گئی۔

تقسیم در تقسیم کا عمل، سیاسی سوداگروں کی سوداگری اور شہید فدا کی شہادت نے بلوچ قوم کے فرزندوں کو مایوسیوں میں مبتلا کردیا جسکی وجہ سے شہید غلام محمد کی ذمہ داریاں مذید بڑھ گئیں اور آپ نے شعور اور پختگی سے لبریز ہو کر تمام مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔

شہید نے اپنی زمانہ طالب علمی کے بیس سال بی ایس او میں گزارے مرکزی جنرل سیکرٹری اور مرکزی چئیرمین کے عہدے پہ کام کرتے رہے اور اس دوران تنظیم کی فعالیت اور بلوچستان نیشنل یوتھ موؤمنٹ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ پارٹی کو غلط ٹریک پہ کی جانے والے عناصر کی بیخ کنی کرکے انکی حقیقت سے قوم کو آشکار کیا۔

آپ ہمیشہ ادارہ جاتی فیصلوں کو اہمیت دیتے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئٹہ میں افغان سفیر نے آپکو اے این پی کے جلسے کی حمایت کا اعلان کرنے کو کہا تو آپ نے انہیں کہا کہ ہماری تنظیم ادارہ جاتی فیصلوں کو اہمیت دیتی ہے اور صرف ایسے فیصلے لیتی ہے جو قومی مفاد میں ہو۔

بی ایس او سے فراغت کے بعد نئی پارٹی تشکیل دینے کے بجائے آپ نے حئی اور ڈاکٹر مالک کے بی این ایم میں شمولیت اختیار کی تاکہ ایسے نوجوانوں کو مجتمع کرسکے جو آج بھی قومی آزادی کے لئے جدوجہد کو اہمیت دیتے ہیں۔ آپ نے اداروں کے اندر رہ کر پارٹی پالیسیوں پہ بے رحمانہ تنقید کی۔انیس سو چورانوے میں آپکو مرکزی کمیٹی ممبر اور 1997 میں مرکزی جونئیر نائب صدر مقرر کیا گیا۔

سنہ 2000 کے کونسل سیشن میں آپ نے اس بات پہ زور دیا کہ اب ڈاکٹر حئی کی جگہ کسی اور امیدوار کو موقع دیا جائے لیکن کسی مرکزی رہنما ء نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ 2002 کے کونسل سیشن میں آپ نے ڈاکٹر حئی کے مقابل صدارت کے لئے مقابلہ کیا اور اس حوالے اپنے نظریاتی ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اب پارلیمانی سیاست سے پارٹی کو مکمل الگ کردینا چاہئیے۔ مشرف دور میں آپ نے عوامی سطح پہ انتخابات کی مخالفت کی جسکی وجہ سے حئی گروپ کو شکست ہوئی اور اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے انہوں نے آپ کے خلاف پروپیگنڈہ کیا لیکن آپ اپنے مقصد پہ ڈٹے رہے۔ 2003 میں آپ نے بی این ایم اور بی این ڈی پی کے درمیان ہونے والے انضمام کو پارلیمانی سیاست کے لئے راہ ہموار کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اسکی بھرپور مخالفت کی۔

دو ہزار چار بلوچ سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت کا حامل سال تھا، جب شہید غلام محمد اور انکے ساتھیوں نے بی این ایم کی آرگنائزنگ باڈی تشکیل دیکر پارلیمانی باجگزاروں سے علیحدگی اختیار کرلی اور اسی سال بلوچ قوم کو بلوچ نیشنل موومنٹ کا عظیم تحفہ دیا۔

کونسل سیشن کے بعد ریاست اور انکے حواریوں کی جانب سے پارٹی کے کارکنان کی گرفتاریاں کا عمل شروع کیا گیا لیکن پارٹی کارکنوں نے مقابلہ کرکے پارٹیوں سرگرمیوں کو منظم و فعال کیا اس دوران پارٹی نے بلوچستان کے کئی شہروں میں جلسے جلوسوں اور عوام شعوری پروگرام کا انتظام کیا جس سے ریاست کی کارستانیوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا اور کارکنوں پہ گھیرا تنگ کرنے کی کوششوں کو تیز کردیا گیا۔

اس دوران نواب اکبر بگٹی کی شہادت کا واقعہ پیش آتا ہے جس سے بلوچستان کے حالت گھمبیر صورتحال اختیار کرتے چلے جاتے ہیں جس سے خوفزدہ ہو کر ریاست اپنے حواریوں کو بلوچ قوم کی ذہنیت بدلنے کا ٹاسک دیتی ہے اور مختلف سازشوں کے ذریعے اس واقعات کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن غلام محمد کی سیاسی بصیرت اور قوت فیصلہ نے ریاست کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا جس سے مجبور ہو کر ریاستی آلہ کاروں نے تین دسمبر دو ہزار چھ کو کراچی کے علاقے کلری سے شہید غلام محمد بلوچ اور شہید شیر محمد بلوچ کو لاپتہ کردیا۔

آپ کی اغوا نما گرفتاری کے خلاف بلوچ عوام اور آپکے خاندان کے لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا اور ریاستی اداروں کے ناک میں دم کردیا، جس سے مجبور ہو کر ریاست نے 20اگست 2007 کو آپکو بازیاب کرکے پولیس کے حوالے کردیا۔ آپ پہ کئی مقدمات بنائے گئے۔ آپکی بازیابی کے بعد ریاست اور اسکے کارندوں نے عوام کو شہید غلام محمد سے بدظن کرنے کے لئے پروپیگنڈہ کا بھرپور سہارا لیا کبھی کہا کہ شہید اغوا نہیں ہوئے بلکہ اسلام آباد میں ہے اور کبھی اس رہائی کو ڈیل کا نتیجہ قرار دیا۔

دو ہزار سات میں بالاچ مری کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا جو بلوچ قومی تحریک کے لئے نہایت ہی نقصان دہ عمل تھا جس سے ہر بلوچ کو صدمے سے دوچار کردیا۔2008 میں بلوچ نیشنل موؤمنٹ کا کونسل سیشن منعقد کیا گیا جس میں آپ کثرت رائے سے دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔ اس دوران آپ نے بلوچ قومی سیاست میں سنگل پارٹی ایجنڈے کو حتمی شکل دینے کی بھرپور کوشش کی یہ آپکی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ بلوچ نیشنل موؤمنٹ نے 2008 میں بلوچ قوم کو بلوچ نیشنل فرنٹ کا تحفہ دیکر بلوچ پیچیدہ و قبائلی سماج میں سیاسی اتحاد کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوا۔ یہ اتحاد دیرپا اور مستقل تو ثابت نہ ہوسکا لیکن بلوچ قومی سیاست میں فردی حیثیت کی جگہ اداروں کی اہمیت اور ادارہ جاتی ذہنیت کو پروان چڑھانے میں ضرور کامیاب ہوا۔ اس دوران ریاست نے آپکے قتل کی افواہ بھی پھیلائی لیکن غلام محمد ایک نڈر رہنما کی طرح ریاست کی ہر سازش کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے اور بلوچ عوام کی سیاسی تربیت کے لئے تمام بلوچ علاقوں کا دورہ کرتے رہے۔

شعر و شاعری:
شہید غلام محمد سیاست کے علاوہ شعر و شاعری کے بھی دلدادہ تھے۔ قیام کراچی کے دوران آپ نے استاد ستار، استاد شفیع اور امام بخش مستانہ کی تربیت میں موسیقی سیکھی۔ آپ نے کئی شعر بھی کہے اور مضامین بھی تحریر کئے، آپکی شاعری اور مضامین میں ایک خود شناس شخص کی جھلک دکھائی دیتا تھا، جس میں قوم کا درد نظر آتا تھا۔

شہادت:
فروری 2009 کو بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے اقوام متحدہ کے کارکن جان سولیکی کو کوئٹہ سے اغوا کیا جاتا ہے۔ جان سولیکی کی رہائی کے لئے مسلح تنظیم اقوام متحدہ اور پاکستان کو کچھ شرائط پیش کرتی ہے۔ جان سولیکی کے اغوا سے بلوچ مسئلہ عالمی سطح پر ایک اہم موضوع بن جاتا ہے۔

شہید غلام محمد کی سربراہی میں ایک بلوچ دوست کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جو ایک طرف جان سولیکی کی رہائی کی کوشش کرتی ہے اور دوسری طرف عالمی سطح پر بلوچ مسئلے کو بھرپور انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جس سے خائف ہو کر ریاست تربت میں تین اپریل دو ہزار نو کو کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر سے شہید غلام محمد،لالہ منیر اور شیر محمد کو دن دہاڑے اغوا کرتی ہے اور ان رہنماؤں کی لاشیں نو اپریل کو مرگاپ سے بر آمد ہوتی ہیں۔

بلوچستان مابعد غلام محمد:
شہید غلام محمد کی شہادت کے بعد بلوچستان میں آزادی سے محبت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا، نوجوان، بزرگ، بچے، خواتین اس شمع کو ہاتھ میں لئے آزادی کے کارواں کا حصہ بنے اور تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوئے۔عوام کا جم غفیر اپنے محبوب قائد کی شہادت کے بعد بلوچستان بھر میں نو آبادیاتی نظام کی علامات کو تہس نہس کردیتے ہیں۔

ایک طرف بلوچ قومی تحریک میں شدت اور دوسری طرف ریاستی رد عمل شروع ہوجاتا ہے، سیاسی کارکنوں سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو لاپتہ اور شہید کرنے کا عمل شدت سے شروع کیا جاتا ہے، شہید غلام محمد کے افکار کو ختم کرنے کے لئے بلوچ سماج میں سیاست اور سیاسی لٹریچر کو ضبط کرنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے، سازشی اور ریاستی اداکاروں کو بلوچ سماج کو پراگندہ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے، ایک بار تقسیم در تقسیم کا عمل اور لوگوں کو تحریک سے بدظن کرنے کی کوششوں کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حئی،مالک اور مینگل جیسے منفی کرداروں کو سامنے لایا جاتا ہے، بی ایس او اور بی این ایم کالعدم قرار دئیے جاتے ہیں اور خواتین کی جبری گمشدگی اور سرینڈر کرنے کے عمل کو تقویت دی جاتی ہے۔

خونی آپریشن کا آغاز ہوتا ہے اور سیاست کو مکمل سماج کے لئے مکمل ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ ریاست بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے کئی اقدامات اٹھاتی ہے۔

اختتامیہ:
موجودہ بلوچستان کی سیاست اور بلوچ قومی تحریک پہ نظر دوڑائیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تحریک ہزاروں کمزوریوں کے باعث اپنے منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئیے کہ تحریک میں موجودہ کمزوریاں نئی نہیں ہے بلکہ وہی کمزوریاں آج بھی دکھائی دیتی ہے جو ستر سے دو ہزار کے درمیانی عرصے میں موجود تھی۔ آج ہمیں غور کرنا چاہئیے کہ کمزوریاں کہاں موجود ہے اور ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا۔

آج اس سوال پہ سوچنا ہوگا کہ پارٹی اور تنظیموں کے لٹریچر پہ پابندی سے ہم بلوچ نوجوانوں میں اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہورہے ہیں؟ آج تحریک میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اس کی وجوہات کیا یںے؟ جس ادارہ جاتی سوچ کو شہید غلام محمد نے پروان چڑھایا اور پارٹی میں آمرانہ سوچ کی بیخ کنی کی کیا یہ آمرانہ سوچ آج بھی موجود ہے؟

اور ایسے کئی سوالات جن کا جواب تلاش کرنا نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔

ہمیں اس سوال پہ غور کرنا ہوگا کہ آیا انقلاب اور بھائی چارے اور اتحاد کا جو پل شہید غلام محمد نے تعمیر کیا تھا وہ عارضی بنیادوں پہ تھا یا مستقل بنیادوں پہ، اگر مستقل بنیادوں پہ تھا جو کیوں اس کی جڑیں جلد ہی کٹ گئی اور اگر عارضی تھا تو کیا ہم عارضی نوعیت کے پلُ تعمیر کرکے بلوچ قومی تحریک کو اسکی منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔

آج ہمیں اپنے عقائد اور تمناؤں کو ایک طرف رکھ کہ لفاظیت سے نکل کر حقیقی بنیادوں پہ شہید غلام محمد اور انکے ساتھیوں کے افکار پہ عمل کرنا ہوگا تاکہ بلوچ قومی تحریک حقیقی بنیادوں پہ قوم میں اپنی جڑیں پیوست کرسکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔