شہید اسحاق ایک جانباز ساتھی
تحریر: چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہمیشہ میرا کوشش یہی ہوتا ہے کہ اپنے قلم, زہن و فہم کو وطن مادر کی مہر, حرمت و آزادی کے خاطر قربان ہونے والے مہر زادوں کے لیۓ وقف کردوں. لیکن شہیدوں کے کردار پہ لکھنا, انکی اعلیٰ ظرفی کو لفظوں میں پِرونا اور قربانیوں کو قلم سے سرخ رنگ دینا ہمیشہ ہی میرے لیۓ مشکل اور کٹھن کام رہا ہے.
شہید تو ہوتے ہی عظیم ہیں. شہادت ہوتا ہی عظیم لوگوں کے لیۓ ہے. ان کی اڑان و پہنچ ہمارے سوچ و تخیل سے کہیں اونچی اور کہیں آگے ہوتی ہے. اس لیۓ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیۓ, ان کے کردار پہ اپنی خیالات کی درشانی کے لیۓ عظیم لفظ ہی چھوٹے لگنے لگتے ہیں.
شہید اسحاق اور حق نواز دونوں ہی میرے وطن کے روشن چمکتے دمکتے ستارے ہیں. لیکن یہاں میرے تحریر کا مرکزی کردار اسحاق بادینی عرف یوسف بلوچ ہوگا. کیونکہ میری معلومات شہید حق نواز کے نسبت شہید اسحاق کے بارے میں تھوڑی زیادہ ہیں.
پانچوں اور طویل بلوچ قومی تحریک کے جہد میں شامل ہونے والے شہیدوں اور غازیوں کی صفت میں اگر میں ان کے شان و شرف میں کچھ لکھوں تو یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہوگی، اگر آج میں اس کاروان میں ہمگام ہوں تو شاید یہ کریڈٹ انہی دوستوں کو جاتا ہے، جو آج ہمارے ساتھ اس سفر میں اپنا حق ادا کر کے مادر وطن کے سینے میں سکون کی نیند سو رہے ہیں یا وہ غازیوں کے شکل میں آج بھی دشمن کے سامنے تاتاری کے پہاڑ کی طرح مضبوطی کے ساتھ دشمن کو شکست دینے پر ڈٹے ہوئے ہیں
اسی طرح راسکوہ کے دامن وادی نوشکی میں جنم لینے والے سنگت اسحاق بلوچ کی بہادری کی داستان کو آج بھی بولان اور شور پاور کے پہاڑ سنہرے الفاظ میں محفوظ کر رہے ہیں، شہید حق نواز بلوچ کے بڑے بھائی سنگت اسحاق بلوچ نے 2008 میں بولان کے مرکزی کیمپ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے خدمات سرانجام دینے کے لیے کیمپ سے شہر کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے بہترین حکمت عملی کو اپنانے کی وجہ سے چھ سال تک شہری نیٹورک میں دن رات ایک کرکے دشمن کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں۔ شہر میں گوریلا جنگ کو جاری رکھنے والے سنگت اسحاق بلوچ جب شہر میں دشمن کے نظروں میں آنے کے بعد تنظیمی بشمول سینئر کمانڈ کے فیصلے کے مطابق قلات کے تاریخی پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں، جو پہلے سے ہی دشمن کے لینے آگ کے شعلے برسا رہا ہوتا ہے۔
سنگت اسحاق بلوچ انہتائی مخلصی اور ایمانداری کے ساتھ شور کیمپ میں بھی اپنے چھوٹے بھائی سنگت حق نواز عرف بلوچ خان کے ساتھ دشمن کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر مقابلہ کرتے رہے تھے۔ بھائی کی شہادت یعنی شہید حق نواز کے شہادت کے بعد اسحاق اور مضبوط ہوچکے تھے۔ وہ مزید جوش و خروش کے ساتھ دشمن کے لئے زہر بن ثابت ہورہے تھے اور مزید نئی حکمت عملی اپنا کر نئے شہری نیٹورک بنا کر دشمن پر ٹوٹ پڑتے
حق نواز کی شہادت کے بعد شہید سنگت اسحاق کو کافی پریشررائزڈ کیا گیا کہ وہ سرینڈر کرے اور اپنے ہی دوستوں کے خلاف دشمن کا ساتھ دے۔ شہید اسحاق کو پریشر کرنے کے لیے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس کے بھائی کو اغواء کے بعد سرکار کی طرف سے سنگت اسحاق کے بھائی کی بازیابی کے لیے یہ شرط رکھا گیا کہ جب اسحاق سرینڈر کرے گا، تب ہی اس کے بدلے اس کے بھائی کو بازیابی ملے گا لیکن تاریخ آج بھی گواہی دے رہا ہے۔ اسحاق کی مخلصی اور بہادری یا تحریک کے ساتھ خلوص کو کوئی بے بنیاد ثابت کرسکے۔ سنگت اسحاق گھر کے آرام دہ زندگی کو ترجیح دینے کے بجائے پہاڑوں میں تکلیف سردی گرمی کے پرواہ کئے بغیر دشمن کو یہ یقین دلارہے تھے کہ وطن کے جانباز ابھی تک دشمن کے خلاف ثابت قدم ہیں۔
آج ایسے محسوس ہورہا ہے کہ اعلیٰ کردار کے مالک اسحاق آج بھی زندہ ہیں، لیکن مرے تو آج ہم لوگ ہیں، کیونکہ ہم آج اسحاق جیسے ایک انمول دوست، ایک ہیرے سے محروم ہو گئے ہیں، اسحاق سے ہم جسمانی طور پر ضرور جدا ہوئے ہیں، لیکن اسحاق اور ہمارا فکر اور مقصد ایک ہی ہے اور اس بات کا اعادہ کرنا ہے کہ فکر ء اسحاق کو آگے لے جانا ہے، جب اس کے فلسفے اور اس کے نقش قدم پر دوست چلیں گے، اسحاق کو اس بات کا سکون ضرور ہوگا کہ جس مقصد کے لئے میں نے آج قربانی دی ہے دوست اسے آگے لے جانے میں دن رات محنت کررہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔