شہدائے مرگاپ کی یاد میں آن لائن پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ بی این ایم

205

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ “شہدائے مرگاپ کی گیارہویں برسی کے مناسبت سے پارٹی پروگراموں کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں بی این ایم یو کے زون کے زیر اہتمام ایک آن لائن ریفرنس منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت بی این ایم یو کے زونل صدر حکیم بلوچ نے کی، مہمان خاص بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ تھے۔ ریفرنس سے حسن دوست، حکیم بلوچ، فہیم بلوچ اور نسیم بلوچ نے خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بی این ایم یو کے زون کے جنرل سیکرٹری نیاز بلوچ نے سرانجام دیئے ۔ اس میں کارکنان کی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔

اجلاس کے آغاز میں شہدائے مرگاپ اور دنیا کے تمام شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔

مقررین نے ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہدائے مرگاپ اور دنیا کے ان تمام شہداء کو سلام پیش کی  جنہوں نے قوم و وطن کی روشن صبح کیلئے اپنے جانوں کی قربانیاں  پیش کی ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ شہید غلام محمد بلوچ ایک ایماندار ، صاف گو، مدبر اور دور اندیش سیاسی رہنما تھے۔ انکی شہادت کے بعد ایک بڑی خلاء  پیدا ہوئی۔

مقررین نے کہا کہ شہید غلام محمد بلوچ ،شہید لالا منیر بلوچ اور شہید شیر محمد بلوچ نے دشمن کی اذیت خانوں میں اذیت سہتے ہوئے دشمن کو یہ دکھایا کہ ہماری جانوں سے زیادہ ہمیں اپنا وطن اور قوم عزیز ہیں۔

مقررین نے کہا کہ جب بلوچستان نیشنل موومنٹ کا دور تھا تو شہید غلام محمد بلوچ انہی اداروں کے اندر بلوچ سیاست کو حقیقی بنیادوں پر لے جانے کی جدوجہد میں برسرپیکار تھے وہ جانتے تھے کہ موجودہ لیڈر شپ بلوچ سیاست اور بلوچستان کو مزید ایک گہرے کھائی میں دھکیل دیں گے۔ اس کے لئے وہ شب و روز جدوجہد کرتے رہے جبکہ دوسری جانب پارٹی کے اندر نام نہاد لیڈرشپ نے اسے ہر طرح سے راہ راست سے ہٹانے کی ناکام کوششیں بھی کیں۔ اس کی گواہی شہید غلام محمد بلوچ کی اپنی زندگی میں لکھی تحریر ”سقوط بولان“ میں تحریر فرمائی کہ اسے گاڑی بنگلے سے خرید نے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب طبیب اصغر و طبیب اکبر (ڈاکٹر حئی و ڈاکٹر مالک) کو ناکامی ہوئی تو انہیں راہ راست سے ہٹانے کیلئے ڈرانے و دھمکانے کی کوشش کی گئی۔

مقررین نے کہا کہ جب ۲۰۰۳ میں نام نہاد لیڈرشپ نے پاکستان کی سطح پر سیاست کرنے کی ٹھان لی اور بی این ڈی پی سے انضمام کرکے نیشنل پارٹی کے نام سے ایک پارٹی بنائی تو شہید غلام محمد بلوچ نے پارٹی دوستوں کے ہمراہ اس نام نہاد انضمام کو رد کرتے ہوئے بی این ایم کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔

مقررین نے کہا کہ جب بلوچستان نیشنل موومنٹ کا ۲۰۰۴ میں کونسل سیشن منعقد ہوا تو اسی کونسل سیشن میں کونسلران نے پارٹی کا نام تبدیل کرکے بلوچ نیشنل موومنٹ رکھا اور پارٹی پالیسی کو مبہم رکھنے کے بجائے واضح کیا گیا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ جمہوری سیاست پر یقین رکھتے ہوئے غیر پارلیمانی جدوجہد کرے گی اور پارٹی خالصتاً بلوچستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کریگی اور قومی آزادی کے لئے برسرپیکار تمام محاذ اور جدوجہد کو سیاسی و اخلاقی حمایت کرے گی۔

مقررین نے آخر میں کہا کہ آج کا دن ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے شہداء کی دی گئی فلسفہ کو منزل مقصود تک لے جا کر ایک آزاد وطن کے قیام کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے شہداء کے ارمان کو پورا کریں۔