شہدائے مرگاپ کا خون ابھی تازہ ہے – گلزار امام بلوچ

625

شہدائے مرگاپ کا خون ابھی تازہ ہے

تحریر: گلزار امام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ تحریک میں کچھ ایسے خونی واقعات ہیں، جنہوں نے بلوچ سیاسی و مزاحمتی جنگ کو ایندھن فراہم کیا۔ ان میں 26 اگست 2006 کو نواب اکبر خان کی ساتھیوں سمیت شہادت اور 9 اپریل کو تین بلوچ رہنماؤں کی ملنے والی مسخ شدہ لاشوں کے واقعات شامل ہیں۔ مرگاپ سے ملنے والی یہ لاشیں بلوچ نوجوانوں کے دلوں میں موجود اس نفرت کو سامنے لانے میں کارگر ثابت ہوگئے جس کی تمنا خود شہید غلام محمد کو تھا کہ میری شہادت سے اگر دشمن کے خلاف بلوچ کی جنگ مزید تیز تر ہوتی ہے تو شہادت میری تمنا ہے۔

جہد آزادی کے سیاسی جنگ میں میرے سیاسی سرگیوں کا مرکز پنجگور رہا، تربیت کہیں یا سیاسی چالبازی کے ہنر میں کمی بی ایس او سمیت بی آرپی کے مرکز تک میں کبھی پہنچ نہ پایا۔ لہٰذآ شہید غلام محمد و شہید شیر محمد سے زیادہ نزدیک ہونے اور ان سے سیاسی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن شہید لالا منیر پنجگور کی قومی سیاست میں ہمارے لئے ایک سیاسی استاد سے لیکر ایک شفیق باپ سے کم نہیں تھے، بلوچ سیاسی آزادی پسند لیڈروں سے تھوڑا بہت اگر سیکھنے کا موقع ملا تو گراونڈ اکثر و بیشتر پنجگور کا مہربان خاک رہا۔

بی ایس او آزاد کی قیادت کی خواہش تھی کہ بی این ایم کے ساتھ کوئی باقاعدہ سیاسی اتحاد بنایا جائے لیکن اکثرزونل سطح پر دوست اس اتحاد سے ڈر رہے تھے، اس کی سب سے بڑی وجہ پالیمانی پارٹیوں کے ہاتھوں بی ایس او کے سابقہ ادوار میں تقسیم یا اپنے اصل مقصد سے روگردانی تھا۔ زونل سطح پر جو دوست جس میں میں بھی شامل تھا اس کی شدید مخالف تھے جو کہ ہماری کم سیاسی تجربہ کاری تھا چونکہ اس وقت بلوچ آزادی کے سیاسی جنگ میں سب سے بڑا کردار بی ایس او کا ہی تھا، بی این ایم شہید غلام محمد بلوچ کی قیادت میں ایک نئے پروگرام کے تحت بلوچستان میں فعال ہورہا تھا تو شہید غلام محمد بی ایس او سے باقاعدہ ایک اتحاد کی بے حد کوششوں میں مصروف تھے۔ اس سلسلے میں شہید آغا عابد شاہ کی خواہش پر ہم نے زونل سطح کے دوستوں کے ہمراہ ڈگری کالج پنجگور میں شہید غلام محمد، شہید لالا منیر کے ہمراہ ایک طویل نشست کا اہتمام کیا۔

شہید غلام محمد و شہید لالا منیر کی سابقہ وابستگی پارلیمانی سیاست سے رہی تھی، ہم نوجوان پارلیمانی سیاست کے سخت ترین مخالف تھے، اس بناء پر ہم شہید غلام محمد کے ان دلائل سے آخر وقت تک مطمئین نہیں ہوئے کہ بی ایس او کسی سیاسی پارٹی کا باقاعدہ اتحادی بنے کیونکہ پاکٹ آرگنائریشن کا لفظ بلوچ سیاست میں انتہائی بدنام ہوچکا تھا۔ اس بناء پر ہم ایک حقیقی اتحاد سے بھی کترا رہے تھے۔

بعد میں بدلتی سیاسی صورتحال، بی آرپی کی تشکیل و بی این ایف کا قیام، بی ایس او کا فعال کردار ہمیں تھوڑا بہت سیاسی پختگی کے اسٹیج پر لاچکا تھا لیکن شہید غلام محمد کے ساتھ اس طویل نشست میں جہاں شہید لالہ منیر نے ہمیں کچھ زیادہ ہی جذباتی نوجوان قرار دے دیا تھا تو وہیں شہید غلام محمد ہمیں بی ایس او کے حقیقی وارث قرار دے کر اگلی نشست کا وعدہ کرکے ہم سے رخصت ہوئے۔

بی این ایف کے قیام کے دوران پنجگور تقریباً سیاسی سر گرمیوں کا مرکز بن گیا تھا، جہاں شہید لالا منیر کے دلچسپ و انمول تقاریر و شہید غلام محمد کے علمی و شاعرانہ انداز کے انداز بیان نے پنجگور کی سیاسی ماحول کو ایک حد تک مزاحمتی ماحول بنا دیا تھا۔

جب میں نے مزاحمتی سیاست کو وقت کی ضرورت سمجھا، تو میرے مصروفیات و کام کا جگہ کیچ رہا، جہاں کے نوجوانوں میں شہید غلام محمد کے کردار کی جھلک نظر آرہی تھی۔ یہ جھلک کبھی لالا منیر بن کر نظر آنے لگا، تو کبھی شیر محمد بن کر نمو دار ہوا۔

پنجگور میں سیاسی مزاحمت کے دوران شروع میں ہم کم دوست شہید لالا منیر کے ہمراہ سرگرم عمل تھے، جہاں لالا ہمارے لئے ایک ایسے رہبر تھے کہ جس شٹر ڈاؤن ہڑتال میں لالا ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو دکاندار دکانیں بند نہیں کرتے کہ لالا ان کے ساتھ نہیں ہے یہ لڑکے اپنی طرف سے یہ شرارت کررہے ہونگے۔ لالا ایک ایسے سیاسی رہبر تھے جنکی شہادت نے پورے بلوچستان کو سوگوار تو کردیا تھا لیکن پنجگور کے سیاسی ورکر اپنے آپ کو یتیم تصور کرنے لگے لیکن لالا و ساتھیوں کے خون نے ایسے سینکڑوں نوجوان پنجگور میں پیدا کیئے، جہاں لالا کی کمی و ہماری ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔

سیاسی جنگ میں جہاں ریاستیں اپنی وحشیانہ پن کا استعمال کرتی ہیں، وہاں سیاسی کرداریں و قوتیں نئی جہت و حکمت عملیوں سے میدان عمل میں اپنا کردار نبھاتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک مزاحمتی کمانڈر کی جانب سے غلام محمد کے بعد کے بی این ایم پر نکتی چینی سے دلی افسوس محسوس ہوا کیونکہ میں نہ واحد قمبر بن سکتا ہوں، نہ چیئرمین خلیل، نہ غلام محمد لیکن ہر کوئی اپنا جدا کردار بن سکتا ہے۔ جہاں اپنی بساط کے مطابق، اپنی قومی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں۔ گوکہ شہید غلام محمد کی سیاسی سرگرمیوں کے دوران بلوچستان میں ریاستی جبر آج کے حالات سے مختلف تھے، تو ان حالات کے مطابق بی این ایم کے پروگراموں کی تشکیل کیلئے، بی این ایم میں چیئرمیں خلیل بلوچ کے کردار کو مسخ کرنا، شہید منان و غلام محمد کی قربانیوں کے ساتھ ایک مزاق تصور کیا جائے گا۔ بات شہدائے مرگاپ کا ہورہا تھا، گلے شکوے تک پہنچ گیا۔ خون جب ایک عظیم مقصد کیلئے بہایا جائے تو وہ خون کبھی خشک نہیں ہوتا۔ شہدائے مرگاپ کا خون آج بھی تازہ ہے اور تابندگی سے چمک رہا ہے اور حالات کے ظلمت میں قوم کو منزل کا پتہ دیتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔