شہدائے مرگاپ – ماما قدیر بلوچ

230

شہدائے مرگاپ

تحریر: ماما قدیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

محکومی، استحصال، جبر و استبداد اور بیرونی قبضہ گیری کا خاتمہ متاثرہ اقوام، انسانی حقوق کے گروہوں و مظلوم طبقات کی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ایک مسلمہ قانون بن چکی ہے کہ جبر و استبداد کے خلاف انسانی مزاحمت کا پیدا ہونا ناگزیر ہے، خصوصاً ایسے سماجوں اور اقوام میں جہاں باوقار اور مساوی حیثیت میں زندہ رہنا عمومی مزاج اور نفسیات کا نمایاں خاصہ ہو وہاں محکومی، جبر کی صورتحال کو زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ بلوچ قوم بھی کچھ ایسی ہی مزاج رکھتی ہے۔

چیئرمین غلام محمد بلوچ اور ان کے ساتھی لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ بھی تحریک میں اپنے سب کچھ کی قربانی دینے والوں کی کہکشاں میں جگمگاتے ستارے تھے۔ ان عظیم بلوچ سپوتوں کی شہادت نے قابض قوت کے حیوانی، درندہ صفت چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔ ان رہنماؤں کی شہادت بلوچ نسل کشی نوآبادیاتی ریاستی پالیسی پر عمل درآمد کا گھناؤنا آغاز تھی اس کے بعد اٹھاؤ، مارو اور پھینکو کا وحشیانہ عمل تیز کردیا گیا جو ہنوز جاری ہے۔

ان رہنماؤں کو تربت میں عدالتی سماعت کے موقع پر خفیہ ریاستی اہلکاروں نے گن پوائنٹ پر اغواء نما گرفتار کیا اور پھر خفیہ عقوبت خانوں میں انہیں زیر حراست رکھ کر بدترین انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعدازاں انہیں وحشیانہ طریقے سے شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو مرگاپ کے مقام پر ویرانے میں پھینک دیا گیا۔ یہ شہادتیں در اصل قابض قوتوں کی جانب سے بلوچ قوم کے لیے واضح پیغام تھیں کہ صرف بندوق ہی نہیں بلکہ جو بلوچ اپنے قومی حق کے لیے پرامن اور جمہوری طور پر بھی آواز اٹھائے گا اس کا انجام شہدائے مرگاپ جیسا ہوگا۔

تینوں رہنماؤں کی شہادت پر بین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آیا۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے پاکستانی بالادست قوتوں کے اس وحشیانہ اقدام کی مذمت اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا مگر پاکستانی حکمران اپنی سفاکانہ روش سے باز نہیں آئے اور اس کے بعد اٹھاؤ، مارو اور پھینکو کی نسل کش پالیسی پر عمل درآمد ان رہنماؤں کی شہادت سے تیز کردی گئی۔

تینوں بلوچ رہنماء شہدائے مرگاپ کے نام سے مشہور ہوئے، اگر اپنی زندگی میں چاہتے تو قابض قوتوں سے بیش بہا مراعات بھی حاصل کرسکتے تھے، جن کی انہیں بارہا پیش کش بھی کی گئی، مگر انہوں نے اپنی مٹی کا قرض اتارنے کے لیئے، اس کی خوشحالی کا راستہ شعوری طور پر اختیار کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ جس بلوچ قومی تحریک کے راہ کے داعی ہیں۔ وہ مستقل جدوجہد سے ہوکر گذرتا ہے اور جس کی قیمت وحشیانہ تشدد اور جان کی قربانی کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔

شہدائے مرگاپ کی آج گیارہویں برسی کے موقع پر ایک بار پھر خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے دن کو شایان شان طور پر اس عہد کے ساتھ منانے کی ضرورت ہے کہ بلوچ شہداء کے مشن کو آخری فتح تک جاری رکھا جائے گا۔ جو شہدائے مرگاپ سمیت تمام شہید بلوچوں کے خون کا شاندار انتقام ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔