سیاست اور مزاحمت کا انمول امتزاج”میجر نوراپیرک“
تحریر: سگار کولواہی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں مزاحمت اور سیاست کی طویل تاریخ ہے، لیکن ہمارے یہاں سیاست اور مزاحمت کا رشتہ، سیاست اور مزاحمت کی تشریح، سیاست اور مزاحمت میں تفریق اور مماثلت، سیاسی اور عسکری کارکنوں میں ہم آہنگی کا پیمانہ، ہمارے اداروں اور سماج میں پیچیدہ ترین بحث و مباحثے کا حصہ ہیں۔ لیکن ایک دور اندیش، قابل فہم اور پختہ جہد کار، سیاست اور مزاحمت کی پیچیدگیوں کے درمیان فرق کو فقط تقسیم کار کے عنصر کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ یہی کردار دراصل کسی بھی قوم اور سماج میں منفرد مقام کا حامل ہوتے ہیں۔ بلوچ سماج کی سیاسی اور عسکری جدوجہد بھی انہی پیچیدگیوں کا سامنا گذشتہ ایک عرصے سے کرتا چلا آرہا ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان کئی سوالات حل طلب ہیں۔ یہی پیچیدگیاں ہمارے درمیان انا کا باعث بنتی چلی آرہی ہیں، جوشعور و لاشعورکی مبہم تشریح کے گرد گھومتی جمود کی صورت میں ختم ہوتی ہیں، جہاں سوچ، سوال و جستجو، قومی مقصد، سیاست اور مزاحمت سے جڑے کارکنان خود سے جستجوکرتے ہیں۔ کارکنا ن کی جستجو تحریک کی پختگی کو ظاہر کرتی ہے جونہ صرف منزل کیلئے آسانی کا باعث بنتی ہے بلکہ سیاست اور مزاحمت کے اٹوٹ انگ کو بآسانی سمجھنے میں آپ اور میں والے فارمولے کا خاتمہ کرتی ہیں۔ جہاں سیاست اور مزاحمت کیلئے انقلابی نظریات،لائحہ عمل اور تناظر کی ٖضرورت ہوتی ہے، وہاں ان نظریات کو اپنانے کیلئے جرات اور بہادری کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جیسے ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ”جرات اور بہادری کے بغیر نظریات ایسے ہی ہیں جیسے سپرنگ کے بغیر گھڑی۔“
سیاست برائے آزادی اور مزاحمت کی تاریخ گواہ ہے بدترین ریاستی جبر اور تشددبھی انقلابی کارکنان کیلئے نہ صرف باعث تعلیم رہے، بلکہ انہیں مزید پختہ اور مضبوط بنانے کا باعث بن جاتی ہیں۔ آج انہی حالات میں زیر تربیت سیاسی اور عسکری اداروں سے منسلک کارکنان دشمن کے غیرانسانی حملوں کے نتیجے میں مضبوط ہوئی ہیں، بلوچ تحریک میں بے شمار کردار موجود ہیں جونہ صرف دشمن کے حملے بلکہ دشمن کو اپنی وطن دوستی اور بہادری ودلیری کے عظیم کارنامے دیکھائے جوفتح کی علامات ہیں۔
موجودہ بلوچ سیاست اور مزاحمت کو کاونٹر کرنے کے لئے ریاست کا ظلم و جبر،کریک ڈاون اور سخت ترین دشواریوں کا مقابلہ قیادت اور کارکنان جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ رقم کرتے چلے آر ہے ہیں۔ ان قربانیوں کا ثمر آزاد بلوچستان کا تنا آور درخت اسی صورت میں بنے گا جب ہم اپنی جدوجہد آزادی کو سائنسی بنیادوں پہ استوار کریں گے۔ جو شہید نورا کا خواب تھا جس کے لیے انہوں نے شب و روز ایک کیئے۔
اکیسویں صدی کا نوراپیرک، سیاست اور مزاحمت کے بنیادی اصولوں کو جان کر ہمیشہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو اولین سمجھ کر ثابت قدمی کے ساتھ امر ہوا۔
سیاسی طالب علم سے میجر کی پوزیشن تک نورا ہمیشہ نور جیسا کردار ادا کرتا رہا۔ جو اپنے اردگرد موجود سیاسی اور عسکری دوستوں کیلئے یکساں طور پر اہمیت کا حامل رہا۔
سیاست اور مزاحمت کا انمول کردار میجر نورا پیرک کی شخصیت ایک عہد کا نام ہے۔ نورا جیسا سپوت تاریخ کا وہ کردار ہے جو اپنے آنے والی نسلوں کے لئے ہمیشہ باعث فخر رہے گا۔ قومی تحریک کی کامیابی کے لئے سیاست اور مزاحمت کو لازم و ملزوم جاننے والے نورا کی نظریاتی سوچ سیاسی و عسکری کارکنان کے لئے مشعل راہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔