سرنامہ ءِ تمکین، واجہ چیئرمین – برزکوہی

682

سرنامہ ءِ تمکین، واجہ چیئرمین

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں کہ تاریخ محض فاتحوں کی ہوتی ہے، کامگاروں کی باندی ہوتی ہے، مورخ حاکموں و گیتی فیروزوں کا مطیع ٹہرتا ہے، انکا قلم بس وہاں سجدے میں گرکر کاغذ پر ماتھا رگڑتا ہے جہاں دبدبہ ہو۔ کمزور کا نا ماضی ہوتا ہے اور نا مستقبل وہ محض حال کے قیدی ہوتے ہیں۔ اسی حالِ موجود میں اسے بنا ماضی کے یاداشتوں و تاریخی ورثے اور بغیر مستقبل کے خواب و امکانات کے گم ہوجانا ہوتا ہے۔ یہی ظالم نظامِ فطرت ہے کہ کمزور کو ختم ہونا ہے، لیکن خون طاقت ہے، پسینہ بساط ہے، مقصد مجال ہے۔ جب یہ مجتمع ہوجاتے ہیں، جب مقصد ملتی ہے، اس کیلئے پسینہ بہتا ہے پھر خون تک بہہ جاتا ہے تو نظام فطرت پلٹ جاتی ہے۔ تاریخ کو خراج مل جاتا ہے اور پھر تاریخ اس خون کی توقیر کو اپنے ماتھے پر جھومر بنا کر سجادیتا ہے۔ غلام محمد کون تھا؟ وہی جو خراج دے گیا اور اب تاریخ کے ماتھے پر جھومر بنکر لٹک رہا ہے۔

ہمیشہ سدابہار، ولیوں، شاعروں، سورماوں، ملا فاضل کے عنوان اور شہیدوں کے لہو سے سیراب دیار مند سے تعلق رکھنے والے واجہ غلام محمد کو اگر آپ موجودہ تحریک میں بلوچوں کا وہ واحد لیڈر کہیں جس نے نا صرف سرفیس پر انتہائی واضح انداز میں آزادی کا موقف پیش کیا بلکہ اپنے شعلہ بیان تقاریر میں اپنا سینہ تان کر بیرونی و اندورونی دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے واضح موقف اور واضح پہچان کے ساتھ بغیر مصلحت پسندی و خوف کے ڈٹے رہے۔

واجہ چیئرمین کی پوری سیاسی زندگی و کردار کو اگر آج بھی آپ پرکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں، تو بی ایس او واجہ چیئرمین کی تربیت و پرورش کا اپنا حق ادا کرتے ہوئے، پورا انصاف کرگیا ہے اور پھر واجہ چیئرمین نے بھی واقعی حق و انصاف کے تقاضات کو پورا کرکے، بی ایس او کی لاج کو ہمیشہ قائم رکھا۔

اپنے قومی و سیاسی خیالات، نظریات، دلائل اور موقف پر بغیر مصلحت پسندی و لحاظ و خاطر داری کے، کسی بھی حالت و جگہ بلا تذبذب، دوٹوک اور واضح انداز میں اپنے تعلیمات و خیالات کا انتہائی شائستگی و مدلل انداز میں تشریح کرنا بی ایس او ہی کے تربیت کا خمیر ہے۔

واجہ چیئرمین ایسا ہی تھا، وہ کبھی یہ نہیں سوچتا تھا کہ میں کس کے لیئے قابل قبول ہوں، کس کے لیئے نہیں ہوں، متنازع ہوں یا غیر متنازع، وہ یہ سمجھتا تھا کہ اصل سچائی اور اصل حقیقت کیا ہے، اس پر چلنا، بھرپور محنت و مشقت کرنا اور قربانی دینا ہے اور پھر وقت خود ثابت کردیتا ہے کہ آپ کیا تھے اور کہاں پر تھے؟

نڈر و بے باک، باعلم اور اصل انقلابی قائد ہمیشہ اپنوں کو تو ویسے ہی اپنا سمجھتا ہے لیکن اپنے مخالفین کو بھی اپنا سمجھ کر ان کے بارے میں بھی انا و ضد کو مٹی میں دفن کرکےآگے بڑھتا ہے۔ یہی حقیقی انقلابی قائدین کا بنیادی اور لازمی خصوصیت ہوتا ہے۔ اگر کسی میں اس بنیادی و لازمی خصوصیت کی غیر موجودگی و کمی ہو تو وہ کبھی بھی قائد کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا۔ واجہ چیرمین دشمن اور دشمن کے پے رول پر کام کرنے والے نام نہاد قوم پرستوں کو واضح انداز میں خطرناک دشمن قرار دیتا تھا مگر اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن نہیں بلکہ ہمیشہ ان کی طرف ہاتھ بڑھانے انہیں ایک ساتھ متحد ہوکر ساتھ چلنے کی بھرپور کوشش کرتا۔

میں بذات خود کبھی بھی روایتی سیاست کا نہ قائل رہا ہوں اور نہ ہی رہوں گا، شاید لاشعوری بنیادوں پر ہوسکتا ہے کبھی روایتی سیاست کے اثرات ذہن پر حاوی ہوئے ہوں، مگر شعوری بنیاد پر کبھی نہیں۔ تو آج بھی ایسا نہیں کہ واجہ چیئرمین کے شہید ہونے کے بعد میں محض شہادت کی بنیاد پر انکی خصوصیات بیان کررہا ہوں، انہوں نے چمکتے سورج کی مانند اپنی زندگی میں ہی اپنی اہمیت، قابلیت و صلاحیت ایسے ثابت کی تھی کہ اسکی روشنی اندھوں تک کو سیر دید کردیتی۔

ویسے ہمارے سیاست میں یہ روایت ضرور ہے کہ شہادت کے بعد لمبی چوڑی تعریف و صفت خوانی شروع کریں، میں پہلے بھی اور آج تک بھی واجہ چیئرمین سے چند ایک نکات پر اختلافات رکھتا تھا اور انہیں کہتا تھا کہ واجہ اس غیرمہذب و انسانیت سے عاری دشمن سے یہ توقع نہیں رکھنا کہ آپ پرامن و جمہوری انداز میں آزادی کی جدوجہد کرسکتے ہو۔ وہ آپ کو زیادہ دیر تک زندہ نہیں چھوڑیں گے لیکن کم از کم آپ اس کے لیئے آسان ٹارگٹ نہیں بنو۔ آپ کی شہادت سے زیادہ آپکا جسمانی حوالے سے زندہ و سلامت رہنا بلوچ و بلوچ قومی تحریک کے لیئے ضروری ہے، شاید میری یہ رائے غلط ہو لیکن ابھی تک یہ فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ شہید غلام محمد سے زندہ غلام محمد کا جسمانی موجودگی کس حد تک ضروری تھا؟

بلکل! آپ اسے سرفیس سیاست کہیں یا جمہوری سیاست، پرامن سیاست، عدم تشدد یعنی آپ جو بھی نام دیں، جو بھی تشریح کریں اس کی بلکل ضرورت تھی اور آج بھی ضرورت ہے لیکن میرا پھر بھی وہی سوال ہے، کیسے اور کس طرح؟ یعنی غیرمسلح انقلابی پارٹی، مسلح انقلابی تنظیم کی تخلیق کرتا ہے یا مسلح انقلابی تنظیم کی کوکھ سے غیر مسلح تنظیم تشکیل پاتا ہے؟ مسلح تنظیم کیا غیر مسلح سیاسی پارٹی کے کنٹرول میں ہوتا ہے یا غیر مسلح تنظیم مسلح تنظیم کے کنٹرول میں رہتا ہے؟ کیا مسلح تنظیم کے عہدیدار یا کارکن غیر مسلح تنظیم کے عہدیدار یا کارکن بن سکتے ہیں یا غیر مسلح تنظیم کے کارکن یا عہدیدار مسلح تنظیم کے کارکن یا عہدیدار بن سکتا ہے؟ نظریہ و فکر اور مقصد کی حد تک بلکل ایک ہی ہیں، لیکن طریقہ کار و حکمت عملی کی حد تک تعلق کیسا اور کس طرح ہونا چاہیئے؟ وہ حد و حدود، اختیارات کی نوعیت کیسا ہونا چاہیئے؟ ذمہ داری کیا ہونا چاہیئے، اختیارات کیا ہونی چاہیئے، فیصلے کہاں پر ہونگے، جنگی حکمت عملی و سیاسی حکمت عملی کہاں پر ہونا چاہیئے، کیا غیر مسلح تنظیم کے کارکن و عہدیدار مسلح جدوجہد کے موضوعی اور معروضی حالات کی نبض کو صحیح و مکمل سمجھ کر جنگی حکمت عملی اور جنگی پالیسی مرتب کرسکتا ہے یا کوئی مسلح تنظیم کا کارکن و عہدیدار سیاست کی مکمل پیچ و تاب کو سمجھ کر سیاسی پالیسی مرتب کرسکتا ہے؟

شروع سے لیکر آج تک ان تمام مختصر اور بنیادی سوالات کے مدلل و علمی اور ٹھوس جوابات کی تشنگی باقی ہے، جب تک یہ واضح نہیں ہونگے، اس وقت تک ہمارے یہاں غیر مسلح سیاست کو اگر روایتی قرار دیا جائے توغلط نہیں ہوگا۔ ایک بار پھر میں کہتا ہوں، پہلے طریقے کی وضاحت ہو، دوسرا یہ کہ مسلح و غیر مسلح تنظیم کے تعلق کی وضاحت، پھر ہر ایک کے حدوحدود واضح ہوں۔ اس کے بعد دشمن کو مدنظر رکھ کر، سیاسی کام کرنے کا طریقہ کار واضح ہو، پھر جاکر اس پر عمل درآمد، انقلابی و غیرراویتی سیاست ممکن ہوگا۔

میرا شہید واجہ سے اکثر یہی بحث و مباحثہ ہوتا رہتا تھا، آج بھی یہی مباحث اور سوالات ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، جہاں تک شہید غلام محمد، شہید لالا منیر اور شہید شیر محمد کی قربانیوں کا تعلق ہے، وہ تو تاریخ بن گئے، اب وہ تاریخ میرے جیسے ادنیٰ جہدکار کی تحریر اور صفت خوانی کا محتاج نہیں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔