ساجد حسین ایک جفا کش صحافی – گہرام اسلم بلوچ

180

ساجد حسین ایک جفا کش صحافی

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اسوقت پوری دنیا میں دو طبقے بہت عدم تحفظ کا شکار ہیں، ایک انسانی حقوق کے کارکن اور دوسرا صحافی برادری۔ وہ جہاں بھی رہیں، جو حق وسچائی کے لیے لکھتا اور بولتا ہے انہیں خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ معاشرے میں یہ وہ طبقہ ہے جو کانٹوں سے بھرا راستہ اختیار کرکے معاشرے میں ظلم و نا برابری اور انصاف کے لیے آواز بلند کرنے والوں کیساتھ شانہ بشانہ رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ سب کچھ انسانی ہمدردی اور نیک نیتی کی بنیاد پر کرتے ہیں مگر حاکم وقت اور صاحب ثروتوں کو ہمیشہ سے انکی آواز سے اپنی اقتدار اور بقاء کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ اُنکا ہمیشہ یہی خیال رہتا ہے کہ یہی انفرادی آواز ایک دن ایک منظم اجتماعی آواز بن کر اُبھرے گا اور انقلاب برپا کردے گا۔ حالانکہ ہر صحافی ملکی آئین و قانون کے دائرے کار کے اندر رہتے ہوئے معاشرے میں عدل و انصاف کے لیے بات کرتا ہے اگر انکی ابتدائی آواز کو عوامی مفادات تصور کیا جائے تو صورتحال بجائے مزید پیچیدہ ہونے کے ایک بہتر حل کی طرف نکلتا ہے۔

ساجد حسین بلوچ بھی بلوچستان کے ضلع تربت کے ایک پسماندہ علاقہ نذرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک سُلجھے ہوئے صحافی ہیں، وہ زمانہ طالبعلمی میں باقی بلوچ نوجوانوں کی طرح طلباء سیاست میں ایک متحرک و سنجیدہ سیاسی کارکن تھے۔ بلوچ و بلوچستان سے محبت اور درد انہیں وراثت سے ملا ہے، وہ اجداد سے بلوچ، بلوچی سے محبت رکھنے کی درس لیتے آرہے ہیں۔ ساجد حسین نے جب کل وقتی صحافت کا پیشہ اختیار کیا تو بلوچستان کے حالات انتہائی نا مساعد تھے، اس ماحول کے اندر حق و سچائی کے لیئے بولنے والوں کو خاموش کرانے کا صرف ایک پیٖام تھا کہ انکے وجود کو ختم کیا جائے۔ اسطرح کے ماحول کے اندر وہ ملکی سطح پر صحافت کے میدان میں بلوچستان کی ایک آواز تھے۔

وہ شروع میں کراچی میں انگریزی اخبارات سے وابستہ تھے اور بعد میں بلوچستان کے حالات انکے حق میں نہیں تھے وہ اپنی جان بچا کر خلیج، افریقہ سے ہوتے ہوئے 2017 میں بطور پناہ گزین سویڈن تک پہنچ گئے۔ وہاں بھی وہ اپنا ایک آن لائن (بلوچستان ٹائمز ) صحافتی ادارے کے چیف ایڈیٹر تھے۔ ساجد بلوچ ایک ممتاز صحافی ہیں، وہ اُن صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں جو بلوچستان کے لیے ایک آواز بننا چاہتے تھے ۔ وہ اپنے شعبے میں بےشک ایک خاموش مزاج انسان تھے، مگر وہ ایک جفاکش صحافی تھے۔ انکی سویڈن میں لاپتہ ہونے کی خبر اُسوقت سامنے آئی جب 28 مارچ کو انکے اپنے ادارے ( بلوچستان ٹائمز) کے اداریہ سے خبر شائع ہوئی کہ وہ 2 مارچ سے کسی سے رابطے میں نہیں۔ انکیےلاپتہ ہونے کی خبر انکے خاندان سمیت انکے تمام ہم خیالوں پہ بہت گراں گذر رہا ہے کیونکہ وہ اپنے شعبے میں بلوچستان و بلوچی زبان کے لیئے کام کرنے والے ایک منفرد کردار کے مالک ہیں۔

وہ جس ملک میں بطور پناہ گزین تھا اُس ملک میں انکو شہری حقوق بھی حاصل ہیں، اب اس ملک کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسکے لاپتہ ہونے کا نوٹس لیکر انصاف فراہم کرنے میں کردار ادا کرے کیونکہ اسوقت سویڈن میں بقول انکے اپنے 2015 ایک رپورٹ کے مطاق 160000 پناہ گزین آئے ہیں، اگر ساجد کا ساتھ یہ ہوا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ باقی جتنے بھی پناہ گزین جہاں سے بھی آئے ہیں وہ بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ۔ ہماری دعا ہے کہ ساجد جلد بازیاب ہو اپنے پیاروں کو خوشخبری سنائیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔