زندان میں سب نے خواب دیکھا – شاد بلوچ

396

زندان میں سب نے خواب دیکھا

افسانہ نگار: شاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کال کوٹھڑی کی کالی دیواریں، کالا دروازہ، غم کی آوازیں، آہیں اور سسکیاں صرف کانوں میں درج تھیں۔ دن کا پتہ تھا نہ رات کی خبر…… کئی چہرے کبیر کے سامنے مسکرارہے تھے۔ اور ادب سے جھک جھک کر اپنا تعلق خاطر جتارہے تھے۔ اس کے دل میں محافظوں , دیواروں اور دروازوں کی کنڈیوں کی بے ثباتی کے درد ناک اندیشے پیدا ہونے لگے- اس کے ذہن میں یک دم ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ اکیلی اور ساکت خواب گاہ میں ناقابل برداشت خوف کا احساس چھاگیا۔

کبیر کو اس کالی کوٹھڑی میں پانچ سال کا طویل عرصہ ہوگیاتھا۔ وہ جب بھی خواب سے بیدار ہوتا تو اسے ماں کی سسکیاں، بہنوں کی آہیں اور بھائیوں کی فکر کھائے جاتی تھی۔ کئی برس گذر گئے، کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں کہ کبیر کہاں ہے. کیسا ہے، زندہ بھی ہے کہ نہیں؟

وہ دن، روز کی طرح ایک عام دن تھا، آسمان پر گھنے بادل چھائے ہوئے تھے، لوگوں کی سرگوشیاں تھیں. قدموں کی چھاپ سنائی دے رہی تھی، معمول کے مطابق دال کی خوشبو ہر جانب بکھری ہوئی محسوس ہو رہی تھی. گالیوں کا ایک شور تھا. لیکن کبیر کے لیئے یہ خبر بالکل ناقابل برداشت اور ناقابل یقین تھا، آج صبح سویرے کبیر کو پتہ چلا کہ اس کے چھوٹے بھائی کو شہید کردیا گیا ہے۔ کیوں اور کس نے یہ جاننے سے پہلے ہی اسکی تمام حواس کام کرنا چھوڑچکی تھیں۔ وہ پانچ سالوں سے جس بھائی کے ایک منٹ کے دیدار کے لیئے تڑپ رہا تھا آج اتنا دور چلا گیا کہ خود کبیر چاہے سو سال بھی زندہ رہے مگر ایک نظر بھی اپنے بھائی کو دیکھ نہیں پائے گا۔ کبیر کافی دیرسے چھوٹے بھائی کے ساتھ زندگی کی گاڑی ہوئی رنگینیوں میں محو تھا، اسے ہر وہ دن یاد آرہاتھا جو اس نے اس کے ساتھ گذارا۔

اسے وہ دن بھی یاد آگئے جب پانچ سال پہلے اسے قید کرلیا گیا تو چھوٹا بھائی بشیر اسکے سنگ تھا۔ بشیر کو خود سے جدا کرتے دیکھ رہاتھا، اسے لاتوں اور بندوقوں کے پڑتے دیکھ رہاتھا، اسے زمین پر ایڑیاں رگڑتے دیکھ رہاتھا اور پھر اچانک کبیر خود زمین پر گرا، جیسے ہی گرا اس کے منہ سے بشیرہی نکلا۔ ایک پل کے لیئے ایسا لگا کہ وہ بشیر کو بچانے کے لیئے کود پڑا ہو, مگر یہ تو اسے زمین پر گر کر ہی معلوم ہوا کہ نہ تو کوئی ہتھیاروں سے لیس کھڑ اہے، نہ کسی کے پاس بندوق ہے، نہ ہی کوئی بشیر کو مارہاہے اور نہ ہی وہاں بشیر پڑا ہواہے۔

رات جیسے جیسے بڑھتی جاتی اور ہی خوفناک ہوتی جاتی تھی۔ کبیر کچھ نہ جاننے والے معصوم بچے کی طرح تھا جو ہر بات کو ممکن سمجھتا ہے. اس نے چاہا سورج کو پکارے اور چمکنے کو کہے۔ اس نے سورج سے استدعا کی، گڑگڑا کر چمکنے کو کہا۔۔ لیکن رات اپنی تاریکی اس طرح سے پھیلاتی رہی کہ ایک شعاع تک نظر نہ آئی۔ اور کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جو اس کی سست روی کو بدل سکے۔ وہ کپکپاتا ہوا، سہما سہما, پریشان کال کوٹھڑی کی دیواروں سے ٹکراتالیکن اسے نہ درد کی کیفیت معلوم ہوتی اور نہ ہی وہ یہ سمجھ پاتا کہ اسے آخر ہو کیا گیاہے۔ پانچ سال کے اس طویل عرصے میں اس کو آج تک یہ محسوس نہ ہوا بلکہ اس نے آج تک اس حقیقت کو محسوس کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسی کشمکش میں جانے کب کبیر کی آنکھ لگ گئی اور وہ نیند کی دنیا میں کھوگیا۔

بچوں! آج ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کرینگے، جیسا کہ آپ سب کو علم ہوگا کہ کس طرح سے ہمیں ہماری ریاست ملی تھی۔ ہم نے کس طرح سے زندان میں رہ کر، پہاڑوں کی گرمی سردی برداشت کرکے، جنت نظیر ریاست کواپنی پہچان کی سفید چادر چڑھاکر اس سرزمین کو ایک الگ ریاست کی تصویر کے طور پر پیش کیا – بچوں! کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آج جس سرزمین پر ہم اپنے گن گایا کرتے ہیں اس پر کبھی سرخ رنگوں کی ہولی ہوا کرتی تھی، ہمیں بھولنا نہیں چاہیئے کہ اس وطن عزیز کو پانے کے لیئے ہمارے نوجوانوں نے زندانوں کی زندگی گزاری ہے، انہوں نے بھوک اور افلاس کا مقابلہ کیا، کال کوٹھڑی میں بیس بیس سال کا طویل عرصہ گزارا، انہیں قید کردیا گیا، ماردیا گیا، بھری محفل میں کلاشنکوف کے زور پر ننگا کردیاگیا، کیا وہ دن یاد ہے جب اکیس سالہ کبیر کو اُٹھایا گیا اور اس کے خاندان کے ہر فرد کو ظلم و ستم کا گہوارا بنادیا. حتیٰ کہ اس کےچھوٹے بھائی بشیر کو گھر میں گھس کر قتل کردیا گیا۔ جب وہاں مائیں، بہنیں اور بچے سسکیاں لے لےکر بے حال ہوگئے۔ یہ بھی یاد رکھیئے کہ کبیر کی ماں اپنے چھوٹے بیٹے بشیر کی موت سے سنبھل نہ سکی تووہ خودموت کی وادی میں جاپہنچی۔ جب بڑی بہن یہ سب دیکھ رہی تھی کہ اچانک وہ بھی دنیا ئے فانی سے رخصت ہوگئی۔ لیکن پھر بھی آخری دم تک کبیر کے خاندان نے لڑنا پسند کیا اور لڑتا رہا۔

ڈاکٹر صاحب میرے بچے کو دیکھیئے. اسے ہوا کیا ہے؟ اماں جان! آپ یہاں بیٹھی رہیں آپکے بچے کو کچھ نہیں ہوگا اطمینان رکھیے۔ جب سے ہمارےملک کی فضائیں آزاد ہوئی ہیں تب سے یہاں ایک مکمل نظام اشتراکیت ہے، اب ہم وہ قوم نہیں رہے ہمارے نوجوانوں کی لاشوں نے ہمیں ہماری پہچان دی ہے۔ ہمیں ایک برابری کے نظام کا حصہ دار بنایا، ہمیں افلاس سے نکال کر ایک جنت سونپ دی اور بھوک کی تہذیب سے نکال کر ہمیں ہمیشہ کے لیئے شاد کردیا۔ آج انہی کی بدولت یہاں ہمیں بہترین سہولیات میسر ہیں.

جناب عالی! میں مجرم نبی بخش یہ اصرار کرتا ہوں کہ میں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی اور میں مانتا ہوں کی یہ قانوناً ایک بڑا جرم ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ قانون کے تحت مجھے سزا سنائی جائے، میں نے جلدی ہسپتال پہنچنا تھا اس لیے خلاف ورزی ہوئی کیونکہ میری بیوی دُرخاتون کی طبیعت کافی تشویشناک تھی . اطلاع ملتے ہی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں جلدی وہاں پہنچ گیا۔ آج اس کی طبیعت ٹھیک ہے، صبح سویرے کچھ پولیس والے میرے پاس آگئے اور کہنے لگے تم نے خلاف ورزی کی ہے تو مجھے سیدھا کورٹ لے آئے۔ نبی بخش ایک بہترین استاد ہیں . انکی خدمات معاشرے میں عیاں اور نمایاں ہیں، لہٰذا قانون کی خلاف ورازی پر استاد محترم نبی بخش صاحب کو پانچ سو روپے جرمانہ کیاجاتا ہے جو انہیں دو دن کے اندر اندر جمع کرنا ہوگا، آپ سب کو یہ یاد دلاؤں کہ یہ ملک جس میں ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں، یہ ہمارے نوجوانوں کے بہتے لہو کا نتیجہ ہے۔ وہ جنہیں زندان میں رکھا گیا، وہ جنہیں قتل کیا گیا، وہ جنہیں سترہ سترہ سال کی عمر میں سفید چادر کی زینت دی گئی، وہ جنہیں بیس بیس سال کی عمر میں کالی دیواروں کی نذر کردیا گیاتھا….. سب نے زندان میں خواب دیکھا تھا۔

کبیر کی آنکھ اچانک کھلی، وہ پسینے سے شرابور، جسم ڈھیلا، دماغ سن اور پورا بدن کانپتا ہوا محسوس کررہاتھا۔ اس پر لرزہ طاری تھا۔ وہ کچھ بول رہا تھا لیکن خود اس کو اسکی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی. اس طرح اٹھ کر چل رہاتھا جیسے پاؤں ایک ہی جگہ ساکت ہوں۔ کوئی تکلیف نہیں تھی مگر تکلیف میں مبتلا تھا۔ کبیر کا جسم دیواروں سے ٹکرارہا تھا۔ جب وہ زمین پر گرگیا تو اچانک اس کے ہاتھ مٹکے کے ٹکڑے سے ٹکرایا۔ اس نے وہ ٹکڑا اٹھایا اور ساتھ والی دیوار پر لکھنا شروع کیا۔

جب صبح کبیر کو ناشتہ دینے سپاہی پہنچا تو کبیر اودھے منہ پڑا ہواتھا۔ ہاتھ میں مٹکے کا ٹکڑاتھا۔ سپاہی نےآواز دی مگر کبیر کی طرف سے کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ اس نے ہاتھ سے ہلایا پھر بھی کوئی جنبش نہ ہوئی، سپاہی نے ایک لات جھاڑ دی تب کبیر کا جسم اکڑا ہوا معلوم ہوا، وہ مرچکا ہے…. سپاہی نے غور سے دیوار پر دیکھا جس پر لکھا ہواتھا کہ ”زندان میں سب نے خواب دیکھا“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔