انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کو متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر لاپتہ کرکے غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کیا گیا۔ راشد حسین مفرور نہیں بلکہ پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں ہے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کیا۔
پاکستان کی انسداد دہشتگردی کی ایک خصوصی عدالت نے 2018 کو کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر حملے کے مقدمے کی سماعت میں متحدہ عرب امارات اور بعدازاں پاکستان میں لاپتہ راشد حسین کی وارنٹ گرفتاری جاری کی جس کے ردعمل میں ماما قدیر بلوچ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ راشد حسین کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے حراست میں لیکر غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کردیا گیا۔ راشد حسین کے پاکستانی میں جبری گمشدگی کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور ان کے لواحقین کی جانب سے کوئٹہ اور کراچی میں احتجاج کیئے جاچکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ راشد حسین بلوچ کا کیس ارجنٹ اپیل کے تحت اقوام متحدہ کو بھی ارسال کیا جاچکا ہے۔
ماما قدیر کا کہنا ہے کہ راشد حسین کے زندگی کو خطرات لاحق ہے۔ ان کو اگر کچھ ہوا تو اس کے ذمہ متحدہ عرب امارات اور پاکستان ہونگے جبکہ اس حوالے سے ہم عالمی عدالت انصاف بھی جاسکتے ہیں۔
دریں اثنا ریلیز راشد حسین کمیٹی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ راشد حسین کو پاکستان کے حوالے کیا گیا ہے لیکن راشد حسین پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ پاکستانی خفیہ ادارے ثابت نہیں کرسکے ہیں اور کراچی میں چینی کونسل حملہ کیس میں عدالت اور خفیہ ادارے راشد حسین کو مفرور قرار دے رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں تشویش ہے راشد حسین کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ راشد حسین کی متحدہ عرب امارات سے گرفتاری اور پاکستان حوالگی تک وہ تمام شواہد موجود ہیں لیکن عدالت اور خفیہ ادارے ڈرامہ رچا رہے ہیں۔
ریلیز راشد حسین کمیٹی کا کہنا ہے کہ ہم ایک بار پھر انسانی حقوق کے اداروں اور انسان دوستوں سے اپیل کرتے ہیں کہ راشد حسین کی بحفاظت بازیابی کے لیے آواز اٹھائیں۔