حال احوال کی غیر جانبدارانہ صحافت – گہرام اسلم بلوچ

490

حال احوال کی غیر جانبدارانہ صحافت

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب سوشل میڈیا پر عابد میر صاحب کی ایک پوسٹ پہ نظر پڑی تو معلوم پڑا کہ حال احوال کو اسی 3 مئی کو تین سال پورا ہونے کو ہے اور اسی روز اظہار آزادی رائے کا عالمی دن بھی ہے۔ اسی مناسبت سے وہ ایک خصوصی اشاعت پبلش کرنے جارہے ہیں۔ عابد ہمارے دوست کے علاوہ بلوچستان کے ایک اچھے قلمکار صحافی بھی ہیں اور مجھ سمیت بے شمار نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں انکے صحافتی ادارے حال احوال کا بہت بڑا کردار ہے۔

یقیناً اس نیک کام کو شروع کرنے کا ہمارے بہت ہی سینئر محترم صحافی استاد ( شہید ارشاد مستوئی) کا دیریانہ خواب تھا۔ جب میں جامعہ بلوچستان میں شعبہ صحافت میں ایم ۔ اے ابلاغیات کررہا تھا اور طلبا سیاست سے وابستہ ہونے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر مختلف سیاسی و تعلیمی مسائل پر تنظیم کے پریس ریلیز مختلف اخبارات اور نیوز ایجنسیز تک پہنچاتا تھا تو اُسوقت شہید ارشاد مستوئی ( آن لائن ) کا بیوروچیف تھے۔ اُسکو پریس ریلز دیتے وقت اُسکے ساتھ ضرورکچھ ٹائم بیٹھ کر سیاسی مسائل پہ گفتگو ہوتی تھی۔ وہ بلاشبہ ہمارے سیاسی لائن سے اختلافات رکھتے تھے، وہ ہمشہ ہمیں سُناتے تھے، مگر ہمیں بہت خوشی ہوتی تھی کیونکہ وہ ایک روشن فکر اور ترقی پسند انسان تھے۔ وہ تمام نوجوانوں کے لیے خواب دیکھتے تھے۔ ہر نوجوان سے محبت کرتے تھے اور انکی رہنمائی فرماتے تھے۔

ارشاد کے اس خواب کو پورا کرنے میں عابد نے کم وسائل سے انتہائی مختصر مدت میں حال احوال کو شاندار انداز میں فعال کرنے اور سماج کے مختلف پہلووں کے مسائل کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انکی جفاکشی اور محنت قابل داد ہیں۔ حال احوال کی شرعات ایک ایسے دور میں ہوا کہ جب بلوچستان میں شورش اپنی عروج پر تھی اور بلوچستان کا کیپیٹل کوئٹہ بھی صحافیوں کے لیے کوئی خطرے سے خالی نہ تھا۔ ایسے ماحول میں غیرجانبدارانہ صحافت کا علم بلند کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ملک میں تو روز اول سے اظہار آزادی رائے پر قدغن تھا مگر اسطرح کے حالات میں انتہائی سخت گیر موقف رکھنے والوں کی موقف کو تشہیر نہ کرنا، بھی بلوچستان میں صحافیوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ تھا، ان حالات میں خود خبر بننے سے بچنے کے لیے خبر بنانا بے حد مشکل کام تھا۔ مگر ہمیں اس میدان میں کام کرنے والے اُن دوستوں کو سلام پیش کرنا چاہیئے کہ وہ میدان میں بلوچستان کے کیس اور عام نوجوان کے خیالات کو دنیا بھر تک عام عادمی تک پہنچانا بہت بڑی خدمت ہے۔ خاص طور پر شعبہ صحافت کے میدان میں اس طرح کے پرتشدد اور انتہا پسندانہ ماحول میں غیرجانبدارانہ صحافت کرنا بھی کوئی آسان پیشہ نہیں ہے۔

ایک ایسے مخصوص دن حال احوال کی بنیاد رکھنا کہ دنیا بھر میں اسی دن کو بطور آزادی اظہار کا دن منایا جاتا ہے۔ یقیناً اسوقت دنیا بھر میں بھی آزادی رائے کے لیے جدوجہد ہورہی ہے، ایسا بھی نہیں کہ ہر ملک میں آپکو آزادی ہے کہ جو بھی لکھو ، یا بولو مگر ایسا ضرور ہے کہ ایک آئین و قانون کے دائرے کار کے اندر رہ کر اپنی بات کو کہنے کی آزادی ہے مگر ہمارے یہاں مشکلات اور مسائل انکے برعکس ہیں۔ ہم ملکی آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنی بات یا موقف کو رکھنے لیے، اس لیے کتراتے ہیں کہ یہاں ہر دوسری بات ملکی سالمیت پر آجاتی ہے۔

پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے بے شمار روشن فکر صحافیوں نے قربانیاں دی ہیں جسکی مرہون منت آج کمرشل میڈیا کے مالکان موج کر رہے ہیں ۔ آج ملکی سطح پر میڈیا محض اپنی کمرشل مفادات کی خاطر آزاد میڈیا کا راگ الاپتے ہیں۔ اور جنکی طرف سے اظہار رائے یا آزاد میڈیا کو درپیش مشکلات ہیں۔ ہماری مین اسٹریم میڈیا انکے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رکھتا ہے، جب تک انکے مفادات ہیں۔ اظہار آزادی رائے کے لیے جفا کش ورکنگ جرنلسٹ نے اپنی جان کو ہتھیلی پہ رکھ کر میدان میں مظلوم و بے کس عوام کی آواز کو دوسروں تک پہنچانے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں، مگر انکی اس جدوجہد سے کمرشل میڈیا مالکان نے بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے انکی جدوجہد کو اپنی کمرشل مفادات کے حق میں استعمال کیا۔

اگر آج ملک میں میڈیا اپنے کردار کو سمجھ کر ہر قدم پہ مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتا تو آج ملک میں صحافت کا ایک منفرد مقام تھا اور میڈیا مالکان سلاخوں کے پیچے نہیں ہوتے۔ اب بھی وقت ہے کہ ملکی مین اسٹریم میڈیا وقت اور حالات کے نزاکت کو سمجھ کر اپنی پالیسیاں عوامی مفادات کے لیے مرتب کریں تو شاید ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں میڈیا اور صحافیوں پہ آنے والے مشکلات و مسائل کے خلاف عوامی آواز بلند کرے، کیونکہ اب کی صحافت سے عوام مطمین نظر نہیں آرہا۔

بجائے سماج کے اندر پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہر دوسرے سیاسی یا کاروباری حضرات کے بارے میں منفی رائے قائم کرانے کے حقائق پہ مبنی اور زمینی حالات کے مطابق اپنے قارئین کو شعور دینا ہے۔ اگر یہ شعبہ پسند و ناپسند کی بنیاد پر کام کرے تو کون وہ لوگ ہوں گے جن سے مظلوم عوام انصاف اور سچ کی امید رکھیں؟

اس ضمن میں اگر ہماری بلوچستان کی صحافت کا مثال لے لیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم قدر بہتر اس لیے ہیں کہ بلوچستان کے انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود قومی و طبقاتی جدوجہد سے منسلک تحریکوں سے وابستہ لوگوں کے خیالات کو عوام تک پہنچانا بھی مشکل کام ہے اس حوالے سے ہمیں حال احوال کی پوری ٹیم کو اظیار آزادی رائے کی دن کی مناسبت سے زبردست خراج تحسین پیش کرنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔