تپش بسملانہ
تحریر۔ کوہ روش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جنگ تباہی ہے، جنگ بربادی لاتا ہے، جنگوں میں خوابوں اور خواہشات کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی،ان تمام چیزوں کے باوجود پھر بھی جنگ ضروری ہے، جنگ اپنے تباہیوں کے بعد خوشیاں لاتی ہے، جنگ آسان شے نہیں ہوتی، جنگوں میں بیواؤں اور یتیم بچوں کی آہ و زاریاں آسمان کو سر وں پہ اٹھاتی ہیں۔ جنگی داستانیں ہوسکتا ہے، ایک گرم جوش جوان کے خون کومزید گرم کرے، مگر عملاً جنگ تباہی کا نام ہے، جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں گرم جوش خون نہیں بلکہ نظریہ، کمٹمنٹ اور قوت برداشت جیسے چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ گرم جوش خون اس برف کی مانند ہوتی ہے، جو ہلکی سے گرمی پہ بھی پگھل کر اس کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔
موجوددہ بلوچ تحریک آزادی کے شروعاتی دنوں میں لوگوں کی دھڑہ دھڑہ شمولیت اور آزادی کا نعرہ لگانے والے شاہد اسی طرح برف مانند تھے، یقیناً آپ لوگ یہی سوچ رہے ہونگے میں ایک دم اپنے موضوع سے ہٹ کرکسی اور جانب ہاتھ پاؤں مارنے لگا ہوں دراصل میں آج اسی موضوع پہ بات کرنا چاہونگا اور اپنے تجربات کی بنیاد پہ جومیں نے دیکھا ہے وہ سب بیان کرونگا کہ کس طرح بلوچ تحریک آزادی میں دھڑہ دھڑ لوگوں کی شمولیت، احتجاجی مظاہروں اور جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی شمولیت آخر کار اتنی بڑی ہجوم بن گئی تو کہاں گئی اور ان میں سے بہت سارے لوگ آج کیا کر رہے ہیں۔
میں کوشش کرونگا اگر ممکن ہوسکے میں اپنے اس مضمون کو مزید طول دینے کے بجائے کم سے کم سطروں پہ مشتمل اپنے خیالات کا اظہار کرسکوں۔ ان تمام چیزوں پہ بات کرنے پہ ہمیں کچھ سال پیچھے جانا ہوگا، جب ہم دیکھتے ہیں شہید نواب اکبر بگٹی اور بالاچ خان مری کی شہادت کے بعد بلوچستان مکمل ایک جنگی ماحول میں تبدیل ہوگیا، اس وقت پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے ایسی کوئی پالیسی اپنائی نہیں تھی جیسا کہ مارو پھینکو یا اٹھا ؤ غائب کرو تو ہمارے لوگوں کا گرم خون کھول اٹھا اور سڑکوں بازاروں اور ہوٹلوں میں ہمیں ایک ہی نعرہ سنے کو ملا آزادی کا ایک ڈھنگ گوریلہ جنگ گوریلہ جنگ، یا ہم لے کر رہیں گے آزادی، تیرا باپ بھی دے گا آزادی وغیرہ وغیر۔ وقت کے ساتھ ساتھ گرم خون میں ٹھنڈک پڑنے لگا۔ گرم خون کو مزید انرجی شہید لالامنیر واجہ، غلام محمد اور شیر محمد کی شہادت نے دیا اور اس بار یہ گرم خون زیادہ دیرتک چلنے والا نہیں تھا کیوںکہ اس بار پاکستانی فوج نے اٹھاؤ غائب کرو اور مارو پھینکو کی پالیسی مکمل تیاری کے ساتھ اپنائی ہوئی تھی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ لوگ کنارہ کش ہوتے گئے، حتیٰ کہ پارٹی یا آرگنائزیشنوں کے خصوصی پرگراموں میں بھی چند ہی گنے چنے لوگوں کے علاوہ باقی لوگوں کی شمولیت یقینی نہیں ہورہا تھا۔
ان تمام چیزوں سے پہلے ہر کوئی لمبے بال، بلوچی چھوٹ اور بڑے شلوارپہنے ہوئے ون ٹو فائو موٹر سائیکل لے کر گلی کوچوں کی چکر لگا کر اپنے آپ کو سرمچار ظاہر کرنے کی آخری کوشش میں لگا تھا حتیٰ کہ اگر کوئی اپنے کسی نجی کام کے سلسلے میں کسی دور دراز علاقے میں جاتا تو آتے ہی نہانے کے بجائے مصروف ترین جگوں پہ جاکر لوگوں کو یہی تاثر دینے کی کوشش کرتا کہ وہ پہاڑوں پہ کسی ضروری کام کے سلسلے میں گیا تھا اور وہ سرمچاروں سے ملاقات کرکے آیا ہے۔
جب پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے شہدائے مرگاپ کے بعد ذاکر مجید اور ڈاکٹر دین جان سمیت کئی سیاسی کارکنوں کو اٹھایا اور غائب کیا اس طرح کے لوگ آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے گئے، کئی لوگ تو انہی شروعات دنوں میں کنارہ کش ہوگئے، کئی لوگ اپنے آپ کو زیادہ نظریاتی سمجھنے لگے تو وہ تھوڑے دنوں کیلئے میدان میں ہی رہے، وقت گزرنے کے ساتھ حالت بھی مزید تیزی کے ساتھ خراب ہوتے گئے، فوجی آپریشن اور دوستوں کی شہادت معمول بن گیا، پہاڑوں پہ جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا اور کئی لوگوں نے بیرونی ملکوں کا رخ کرلیا اور یہاں سے ہم میں پیدا ہوتے گئی خودساختہ سفیر، جو بیرون ملک تو اپنے مرضی سے گئے مگر بد قسمتی سے جاکر وہ ہمارے سفیر بن گئے۔ اور یورپی مملک پہنچ کر ہم سیاسی کارکن کے بجائے انسانی حقوق کے کارکن بن گئے اور بلوچ قومی آزادی کے بجائے بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے زیادہ اکٹیو ہوئے، میں یہ نہیں کہتا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہورہے ہیں اگر ہورہے ہیں اس کا اصل وجہ کیا ہے؟ اور کیوں ہورہے ہیں؟ یقینا صاف بات یہی ہے پاکستانی قبضے کی وجہ سے ہورہے ہیں اور ہم بد قسمتی سے آج اصل مقصد کے بجائے کسے اور راستے پہ گامزن ہیں ہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اپنے سیاسی مقصد کے لئے اگر استعمال کرتے ہیں تو ٹھیک ہے مگر اس طرح اصل مقصد کو بھلا کر ایک اور جانب گامزن ہونا نقصاندہ ہے، یقیناً اگر کوئی پروگرام کے تحت جاتا تو اس کو وہی پروگرام دے کر بھیجتے تو وہ وہی کرتا مگر یہاں ٹرین الٹا چلتا آرہا ہے جو بغیر اجازت کے جاتا ہے تو اس کے دل میں جو آتا ہے وہی کرتا ہے۔ جو جاتے ہی سیاسی کارکن کے بجائے انسانی حقوق کے کارکن بھی بن سکتے ہیں، سوشل میڈیا اکٹیویسٹ اور موبائل صحافی بھی بن سکتے ہیں۔ اور انسان اور انسانیت پہ ایمان لاتے ہیں اور کہتے ہیں دنیا مسلح جدوجہد اور پرامن جدوجہد کو زیادہ حیثیت دیتا ہے، یقیناً یہ ابھی یہ نہیں سمجھے ہیں جو دنیا ہے اس کے کھانے کے دانت کچھ اور ہیں دیکھانے کے کچھ اور ہیں۔ حقیقت میں اگر دنیا مسلح جدوجہد کے بجائے پرامن جدوجہد کو زیادہ حیثیت دیتاہے تو دنیا کیوں افغان طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہوا یہ تو وہی طالبان ہیں جن کے رہنماؤں کے سرپر دنیا نے کروڑوں ڈالر لگائے ہوئے تھے آج پھر کیوں ایک ٹیبل پہ بیٹھ کر گفت و شنید کرنے پہ مجبور ہیں؟
ان جیسوں کے علاوہ اور کئیوں کے خون میں ابھی بھی گرمائش تھی، شروع شروع میں جذباتی ہوکر پہاڑ توڑنے کی باتیں تو کرتے تھے مگر آہستہ آہستہ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جب پاکستانی فوج نے بلوچ آزادی کو طاقت کے بل بوتے پہ ختم کرنے یا کمزور کرنے کے لئے طاقت کے استعمال کے ساتھ دماغ کو کام پہ لگا یا اور عام معافی یعنی آؤ سرنڈر ہوجاؤ اور آپ کو معاف کیا جائیگا تو جس طرح لوگ جوق در جوق شروعات دنوں میں بلوچ تحریک سے منسلک ہوئے تھے تو اسی طرح سرنڈر ہونے کا بھی بازار گرم ہوگیا کئی لوگ جاکر سرنڈر ہوئے۔
آزادی کی جنگ ایک کٹھن راستہ، اس میں صرف مصیبتیں اور مصیبتیں ہیں جنہیں برداشت کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اس راستے پہ ہوسکتا ہے کہ برداشت بھی جواب دے اور آپ کے حوصلے بھی پست ہوں۔ مگر ایک بات یاد رکھنا ہے جنگ میں جنگ کے علاوہ کوئی اور چیز اہمیت نہیں رکھتا اور جنگ مار نے اور مرنے کا نام ہے۔
اگر ہم سرنڈر شدہ لوگوں کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہاں دو طرح کے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں ایک وہ ہیں جو ڈائرکٹ سرنڈر ہوئے جنہیں ہم سرنڈر شدہ بھی کہہ سکتے ہیں ایک وہ ہیں جن کے بارے میں ہم سرنڈر نما کہہ دیں تو بہتر ہے۔ ضرور آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ سرنڈر نما کا لفظ میں کیوں استعمال کر رہا ہوں۔ آج ہمارے یہاں بہت سے سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو یا تو سرنڈر ہوئے ہیں یا تھک چکے ہیں جو جنگ کے بجائے آسان راہ فراریت کا راستہ ڈھونڈنے میں لگے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے لوگ ہیں اگر کوئی ایک یا دو تحریر لکھتا ہے تو وہ یہی سمجھاتا ہے کہ میں تو اپنا کام کر رہا ہوں قوم کو لیٹریچر کے حوالے سے تیار کرنے میں میرا کردار تو اہم ہے۔ آج میرے پاس ان جیسے کئی لوگوں کے نام موجود ہے جو باقاعدہ فوج کے سامنے سجدہ زیربھی ہوئے ہیں اور ایک دو افسانہ یا رومانوی داستانیں لکھ چکے ہیں اور سوشل میڈیا پہ سینا تان کر بلوچ سرمچاروں اور قومی تحریک پہ بلاوجہ تنقید نما پروپگنڈا کرتے ہیں اور اس کواپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی پوچھے کہ آپ تو سرنڈر شدہ ہیں تو اس کے پاس یہ دلائل پہلے سے موجود ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی بندوق اٹھائے اور جنگ کرے اور جو میں کر رہا ہوں ایک سرمچار کے کردار سے تھوڑی کم ہے اور یہ بھی قومی کام ہے۔ اگر کوئی چار اپنے ہم خیال اکٹھا کرکے سوشل میڈیا پہ کچھ گروپس اور پیجز بنا کرخود ساختہ ایک نیوز نیٹورک چلاتا ہے تو اس کے پاس بھی یہ دلائل ہیں کہ ہم تو قوم کی آواز بنے ہوئے ہیں، دنیا تک اپنے قوم کی آواز پہنچانے میں میرا اہم کردار ہے اور کھبی کھبی یہ اپنے کام اس طرح افضل قرار دیتے ہیں کہ انکے نظر میں بلوچ سرمچار جو چوبیس گھنٹے فوج کے سامنے دو بدو لڑ رہے ہیں، ان لوگوں کا کام اس سے بھی افضل ہے۔ مگر یہ اس بات پہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں تب تک بلوچ سرمچاروں کی گولیوں کی گھن گرج ہوتا رہے گا، وہ زندہ ہے جس دن خدانخواستہ یہ گولیوں کی گھن گرج بند ہوا، تو سب کے سب سمجھ لینا بے موت مر گئے ہیں۔
جہاں تک آواز بنے کی ضرورت ہے تو بندوق کی گولی کو کسی اورکی ضرورت نہیں ہوتی اور اپنے گھن گرج سے اندھوں اور بہروں کی آنکھ اور کان خود کھول دیتا ہے۔ میں یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں میڈیا کے حوالے سے میرا مقصد ان میڈیا گروپس کی جانب اشارہ نہیں ہے جو پارٹی یا آرگنائزیشنوں کے ہیں۔ میرا اشارہ ان خودساختہ میڈیا گروپس یا فردی گروں کی جانب ہے
ان جیسے لوگوں نے آج تحریک کو ایک مزاق بناکر رکھا ہے، مگر میں آخر میں انہیں یہی کہتا ہوں انقلاب ایک محبت کا نام ہے جو مسلسل تبدیلی چاہتا ہے اور انقلابی کو اس کا غرض بھی نہیں ہوتا انقلاب کا نتیجہ کیا ہوگا، انقلاب نوجوانوں کا عشق ہوتا ہے ابھی عشق کا انتہا اور بھی ہے۔
سفر باقی ہے کاروان میں آپ کو اس طرح کے لوگ اور بھی ملیں گے کاروان چلتا جارہا ہے اور چلتا رہے گا آخری فتح تک چلتا رہے گا اورکسی کا محتاج بھی نہیں ہوگا۔ تاریخ میں بلوچوں کا نام صرف پہاڑوں پہ لڑنے والے جانباز ہی زندہ رکھیں گے، باقی سب خاک بن کر نیست و نابود ہوکر اپنے ہستی سے مٹ جائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔