تقسیم کرو اور استحصال کرو – واھگ بزدار

833

تقسیم کرو اور استحصال کرو

تحریر۔ واھگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخِ دنیا گواہ ہے کہ قوموں اور اُن کی سرزمین پر جس دور میں بھی کسی بیرونی طاقت نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو سب سے پہلا اقدام قوم کی نفسیات، زمینی خدوخال اور سیاسی صورتحال کا جائزہ لے کر استحصالی اور یلغاری پالیسیاں ترتیب دی گئیں۔ جس کی واضح مثال ہندوستان میں برطانوی سامراج کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے لبادے میں تاجروں کی شکل میں جاسوسی کا ایک جال بچھانا اور سپین کا فلپائن کو اپنی نوآبادی میں تبدیل کرنے کے لیے وہاں تاریخ دان اور انتھراپالوجسٹ کو روانہ کر کے پالیسیاں ترتیب دے کر تقریباَ چار سو سال قبضہ جمائے رکھنا، اس بات کی دلیل ہے کہ سامراج اپنی سامراجی مقاصد کی تشکیل کے لیے ہمیشہ سے ہی ایک منظم شکل اور معروضی پالیسیوں کی بنیاد پر کسی بھی سرزمین پر وارد ہوتی ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب برطانوی سامراج کواپنی کالونی برٹش انڈیا جیسے سونے کی چڑیا پر زار روس کے قبضے کا خطرہ سرمنڈلانے لگا تو انڈیا کے ساتھ جُڑے وسطی ایشیاکے ممالک بلوچستان اور افغانستان، کو بفر زون بنانے کی پالیسی ترتیب دی گئی توتمام نوآبادکاروں کی طرح برطانوی سامراج نے تاجروں کی شکل میں ان ممالک میں انتھراپالوجسٹ اور ماہر عمرانیات کا جال بچھانا شروع کیا۔

برٹش انڈیا کیساتھ ملحقہ بارڈر ہونے کے حیثیت سے سب سے پہلے برطانیہ کے خفیہ ایجنٹس کو بلوچستان بھیجا گیا جن کا واضح مقصد بلوچ سرزمین کا جغرافیائی خدوخال ،ریاستِ قلات کا سیاسی صورتحال اور فوج کشی کی صورت میں تمام ممکنہ راستوں کا علم حاصل کرنا تھا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ۱8۱۰ میں سر ہینری پوٹنگر اور سر ٹی ایچ ہولڈچ نے تاجروں کے لبادہ اوڑھا اور دو مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے قلات میں اپنے قدم جمائے اور قلات کی سیاسی صورتحال پر ایک گہری نظر دوڑائی اور انھوں نے ۱8۱۶ میں اپنی تمام تجربات اور مشاہدات کو رپورٹ کی شکل دے کر برطانوی حکومت کے سامنے پیش کیا ۔ ریاستِ قلات کے والی خان آف قلات کی سیاسی مضبوطی اور بلوچوں کی یکجہتی کو پوٹنگر اپنی کتاب میں یوں بیان کرتے ہوئے کہا : ۔

خان آف قلات ریاستِ قلات کی جانب سے ہونے والے تمام فیصلوں کاواحدعلمبردار ہے ۔ خان کسی بھی وقت اور کسی بھی موقع پر تمام قبائلی افواج کو جنگ یا امن کی بحالی کے لیے بلا سکتاہے ۔ خان ریاست کی جانب کسی بھی قسم کا معاہدہ کرسکتا ہے ۔ خان آف قلات تمام اندرونی معاملات اور ریاست میں قانون کی بحالی کے لیے کسی بھی قسم کا فیصلہ صادر کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ تمام قوانین کو عملی جامہ پہنانے کےلیے ایک منظم نظام موجود ہے اور خان آف قلات تمام قبائلی فیصلوں میں آخری حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔

برطانوی حکمرانوں نے مذکورہ رپورٹوں کو بنیاد بنا کر سادہ لوح اور عالمی سیاست سے نابلد بلوچوں پر کئی پالیسوں کو تھوپنے کی کوشش کی اور بلوچ سرزمین کوزیر استعمال لا کر اُن کے برادر قوم افغان پر قبضہ کرنے کے لیے ٹھانا تو بلوچ قوم نے برطانوی سامراج کیخلاف مزاحمت کرکے درہءِ بولان کو فرنگیوں کے خون سے رنگا ۔ بلوچوں کیخلاف ہیجان خیزی اور زہرفشانی کو عملی شکل دینے کے لیے انگریز سامراج نے بلوچ قوم کو اپنے زیر تسلط کرنے اور بلوچ سرزمین پر قبضہ کرنے کے لیے ریاست قلات پر حملہ کیا جس کیخلاف بلوچ قوم میر محراب خان کی قیادت میں یکمشت ہو کر لڑی ۔ برطانیہ جیسے عالمی طاقت کیخلاف سراپائے مزاحمت بن کر بلوچ قوم نے دُنیا کے سامنے ایک مثال پیش کیا اور ۱۳ نومبر ۱8۳۹ کوبلوچوں کے عظیم سپہ سالار میر محراب خان اوراُن کے ساتھیوں کی شہادت کیساتھ ایک آزاد اور خود مختار مملکت کی سورج غروب ہوئی ۔

انگریزوں نے بزور شمشیر بلوچ سرزمین کو زیرِ قبضہ کر کے اپنی مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اورکسی بھی مزاحمت کو بالائے طاق رکھنے کے پالیسوں کے ایک انبار کو عملی شکل دی جس میں سب سے مضبوط اور سامراج کےلیے نہایت ہی مفید  تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی تھی جس کا مقصد بلوچ قوم کو علاقائی ، قبائلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کر کے بلوچوں کی مرکزی وحدت کو کمزور کرنا تھا ۔ کرمان سے لیکر دریائے سندھ اور ہلمند سے لیکر بحیرہ بلوچ تک وسیع ریاست قلات کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا جس کا واضح مقصد کو ریاست قلات کو زیادہ سے زیادہ کمزور اور اپنے قبضے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط رکھنا تھا ۔

بلوچستان کے وسیع علاقے کو تقسیم کر کے بلوچوں کی طاقت کو تقسیم کیا اور ان پر حکمرانی کرنے لگے یاد رہیں بلوچستان کی سرزمین کو افغانستان،ایران،اور بعد میں پاکستان میں تقسیم کیا گیا اور پھر پاکستان میں بلوچستان کے کء علاقوں کو ڈیرہ اسماعیل خان کو خیبرپختونخوا، ڈیرہ غازی خان،ہڑند،داجل اور تونسہ شریف کو پنجاب اور خان گڑھ (جکیب آباد)سمیت بہت سے علاقوں کو سندھ میں شامل کر دیا گیا ۔

27مارچ 1948 کو جب بلوچستان پر ایک غیر فطری ریاست نے بزور شمشیر قبضہ کرلیاتو بلوچ عوام کی طرف سے پاکستانی ریاست کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس دوران ریاست پاکستان نے بلوچ قوم پر backward policy;یاعام الفاظ میں تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھناکہا جاتاہے ۔ ریاست کی لاگوکردہ یہ پالیسی کافی کارگر ثابت ہوئی اور ترقی کے اس دوڑ میں جہاں ویتنام ، الجزائر اور دیگر نوآبادیوں نے قومی بنیادوں پر مزاحمت کرکے آزادی جیسی نعمت سے اپنی اقوام کو سر شار کیا تو اسی دوران انگریزوں کی قبضہ گیر پالیسیوں سے چکنا چور بلوچ قوم پاکستان کی چنگل میں پھنستے ہوئے غیر فطری ریاست کے سامراجی عزائم اور پالیسیوں کے دلدل میں دھنستا چلا جا رہا تھا ۔ یہی وہ پالیسیاں تھیں جنھیں جواز بنا کر ریاست پاکستان نے بلوچ قوم پر اپنے قبضے کو طوالت بخشی تو دوسری جانب انھی پالیسوں کے بل بوتے پر بلوچ قوم کو زیادہ سے زیادہ محروم رکھا گیا ۔ آج اکیسویں صدی کے اس دور میں جہاں دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے اور تعلیم،صحت،روڈ ،ٹیکنالوجی اور نئے مواصلاتی نظام بنیادی ضرورت بن چُکی ہو اور بلوچ قوم پیاس بجھانے کےلیے پانی کے ایک قظرے ، بھوک مٹانے کے لیے چند نوالے اور علم جیسی روشنائی سے روشناس ہونے کےلیے چند الفاظ کا شیدائی ہوتو ہر ذی شعور کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ بلوچ عوام کو تمام بنیادی ضروریات سے دور کرنے کے مقصد کیاہے۔

ان تمام عوامل کو سمجھنے کے لئے نوآبادیات یا کالونیل ازم کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہمیں بلوچستان کی جیوگرافی،تاریخ اور ثقافت کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہوگی ۔ یہاں تاریخ سے مراد وہ نہیں جو سید اقبال احمد ، ایوب بخش اعوان اور انعام الحق کوثرجیسے پاکستانی دانشوروں کے بکاءوقلم کا ہنر ہوبلکہ تاریخ سے مراد وہ تاریخ ہے جس کا بلوچ قوم ہزاروں سال سے وراث ہے جس کی مثال دنیا کی سب سے قدیم تہذیب مہرگڑھ ہے جس کا وارث بلوچ قوم ہے جس کے ہر پہلو سے بلوچ قوم کی خون اور پیسنے کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ۔ ہ میں اس تاریخ پر یقین نہیں کرنا چاہیے جس کو ہنری پونٹگر،لالا ہتو رام،سنڈمن یا چوہدری حمید تھے یا گجرات کے کسی گجر نے لکھا ہو کیونکہ مزکورہ بالا تاریخ دان نہ اس سرزمین کے باسی ہیں نہ بلوچ ادب، تاریخ سے کوئی واقفیت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کو اس سر زمین کے جغرافیا تک کا علم ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ کو چند ٹکے کے ایسے دانشوروں نے پرویا ہے جو بلوچ اور بلوچی میں بھی فرق تک نہیں جانتے اور ایسے تاریخ دان حضرات سے حقائق پر مبنی ر تاریخی اور جغرافیائی خدوخال کی امید رکھنا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو جیسی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر جب سے بلوچوں کی سرزمین کو مختلف حصوں میں کیا تب سے لیکر آج تک خطے میں جو بھی بلوچ علاقے ہیں وہ حقیقی بلوچ مسلے کو سمجھنے سے قاصرہیں ۔ انتظامی طور پر جدا ہونے کی وجہ سے بلوچ سرزمین کے ٹکڑے ٹکڑے پر بسنے والے بلوچ قوم کے درمیان ایک خلا پیدا ہو گئی ہے ۔ جس سے ان علاقوں کے زبان،ثقافت،تہذیب،تاریخ اور نفسیات پر بہت ہی بری طرح متاثر کیا ہے جس کی واضح مثال ڈیرہ غازی خان ۔

آج ڈیرہ غازی خان میں رہنے والے بلوچ اپنی مادری زبان بلوچی کو آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں یا کھوچکے ہیں ۔ بلوچی زبان بولتے ہیں تو دوسری زبان کے لفظوں کا استعمال زیادہ اور بلوچی الفاظ کا استعمال کم کرتے ہیں ۔ ڈیرہ غازی خان میں بلوچ دو زبانے بولتے ہیں جن میں بلوچی اور سرائیکی شامل ہیں ۔ یہاں کے لوگوں کی سیاسی،سماجی اور ثقافتی حوالے سے بلوچستان سے دوری نے ان کو بلوچ اور بلوچیت یا بلوچ کوڈ آف کنڈٹ سے ایک حاض حد تک دور کر دیا ہے اور کر رہی ہے ۔ آج یہاں کے لوگ بلوچستان میں بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم سے بے خبر ہیں اور ان کو بلوچستان میں موجود بلوچ تحریک اور جنگ کا علم نہیں ہے اگر ہے بھی تو اونٹ کے منہ میں جیرہ کے برابر ہے اور دوسری طرف ریاستی مشنری نے یہاں کے مقامی لوگوں کو ایف سی میں بھرتی کر کے ان کو بلوچوں کے خلاف اوکسیا اور ان کے تھرو سے ایک مظبوط پروپیگنڈا شروع کیا کہ بلوچستان میں کوئی قومی جنگ نہیں بلکہ دہشتگردی ہو رہی ہیں جس کی مدد افغانستان اور انڈیا کر رہے ہیں ۔

ریاست پاکستان نے ہر جگہ بلوچ کے سماجی نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ ڈیرہ غازی خان میں لوگ اپنے آپ کو بلوچ کہنے میں یا بلوچی بولنے احساس کمتری محسوس کرتے ہیں اور اسی طرح بلوچستان میں براہوئی اور بلوچ جبکہ ڈیرہ غازی خان میں سرائیکی کو الگ قوم اور بلوچ کو الگ قوم پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ سرائیکی بلوچوں کی ایک زبان ہے ریاست زبان کے بنیاد پھر بلوچ کو بلوچ سے جدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بلوچ سرزمین معدنیات سے بھری پڑی ہے لیکن وہاں کے باشندے آج بھی ایک جانور کی طرح اپنے زندگیاں گذار رہے ہیں جہاں بڑے بڑے پلانٹ موجود ہیں، وہاں پر ملازمت کرنے والے لاہور کے بھٹی، گجرات کے گجر، فیصل آباد کے چوہدری اور ملتان کے ملک اور قریشی ہیں آج اکیسویں صدی میں بھی ڈیرہ غازیخان کے پہاڑی علاقوں میں گرلز ہائی سکول اور بوائز کالج تک نہیں اگر چند عمارت موجود ہے تو وہاں سردار کے گھوڑے اور گدھے بندھے ہوئے ہیں اور آج بھی یہ علاقے قبائل کے نام پر تقسیم ہیں، کوئی بزدار،لغاری، گورشانڑی، کھوسغ،نتکانڑی، سکھانڑی،شہوانڑی تو کوئی دریشک ، مزاری اور قیصرانڑی ہے ۔ یہی قبائل سرکار اور ریاست کی طرف سے دی گئی قبائلی جنگوں میں مصروف ہے اور ریاست اس دوران آرام سے ان کی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کر رہی ہے جو کہ یور نیم، کوئلہ،ائل اینڈ گیس کی شکل میں موجود ہیں اس دوران ریاست کی طرف سے کی گئی پالیسوں سے بلوچوں کو اتنی فرصت کہاں کہ ان پالیسیوں کو سمجھ سکے جو صدیوں پر محیط ہیں ۔ یہاں کے باشندے اپنی غربت اور بزگی کا سبب دوسرے قبیلے کو ٹہراتے ہیں کیونکہ اُن کی پہنچ انہیں تک ہے اور ریاست کے سامنے سر جھکا کر چلنا روایت بن چُکی ہے ۔

آج تک ان بے وقوف لوگوں نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کے اگر کوئی غریب اور لاچارہے تو اس کی وجہ بزدار،قیصرانی، نتکانی ہونا نہیں بلکہ بلوچ ہونا ہے جس کو ریاست کی طرف پیچھے رکھنے کی سازش ہے اور اس کے علاوہ اگر ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کو دیکھا جائے جہاں 90فیصد آبادی بلوچوں کی ہے لیکن وہ پھربھی بلوچی زبان بولنے والا کوئی آپ کو مشکل سے بھی نہیں ملے گا ۔ یاد یہ وہی ڈیرہ اسماعیل خان ہے جو انیسویں اور بیسویں صدی تک بلوچستان کا ایک اہم سیاسی ،سماجی اور معاشی جز کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ یہ وہی ڈیرہ ہے جس کے نوجوانوں نے انجمن اتحاد بلوچان ،بی ایس او اور بی این ایم وائی جیسے تنظیموں کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کے حقوق کے لیے آواز اٹھایا تھا لیکن آج ڈیرہ اسماعیل خان میں لوگ بلوچ اور بلوچیت بھول چکے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ بلوچ سرزمین کے دلبند پر آگ جلائی گئی ہے جو اس کے بلوچ بھائیوں کو جلا رہی ہے لیکن وہ خواب ِخرگوش سے سویا ہوا ہے ۔ اس طرح اگر ہم خان گڑھ میں موجود بلوچ قوم کی حالت دیکھیں تو وہاں بھی یہ تمام چیزے دیکھنے کو مل گئی کہ لوگ بلوچ اور بلوچیت سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں وہاں کے بلوچ سندھی تو بہت اچھی طرح بولا اور لکھا سکتے ہے لیکن بلوچی زبان کو بہت حد تک بھول چکے ہیں ۔

آج سندھ میں رہنے والے بلوچ اپنے آپ کو سندھی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور گھروں میں سندھی زبان بولتے ہیں۔

زبان جو ایک قوم کی بنیادی اکائی ہے اس سے دوری تاریخ سے دوری ہے بلوچستان سے دوری ہے بلوچ نفسیات سے دوری ہے اور آج اسی دوری نے بلوچ قوم کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ خود کنفیوژن کی حالت میں ہے ۔ آج بھی سندھ میں بلوچ،مستوئی، جتوئی، جکھرانی،مٹھوانی اور بزدار اور براہوی کے شکلوں میں تقسیم ہے اور ان قبائل کے درمیان بلوچ اور بلوچیت اپنی وجود کھو چکی ہے ۔

ابھی تک ان علاقوں کے باشندے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر یہ علاقے بلوچ کی بنیاد پر یک مشت ہوکر ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائے تو ریاست کی اتنی جرات نہیں ہوگی کہ وہ اس قوم کا استحصال کر سکے اس استحصال کو روکنے کے لیئے بلوچ بننے کی ضرورت ہے نہ کہ قیصرانی،مغلانی، بزدار اور لغاری کے بلوچ ہو جانے سے بلوچ قوم کے مسلے حل ہوسکتے ہیں ۔ صرف بلوچ اور بلوچیت ہی ہ میں اس استحصال سے بچا سکتے ہیں ۔ آئیں دشمن کے خلاف متحد ہو جائیں وگرنہ وہ دن دور نہیں اس سرزمین کا ملک کوئی اور ہوگا اور بلوچ یا پر پنجابی اور اس کے بچوں کے جوتے پالش کر رہے ہوں گے اور برتن دھو رہے ہونگیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔