بھوک وائرس بمقابلہ کورونا وائرس
تحریر : ندیم گرگناڑی
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں تمام سائنسدان چاہے وہ مسلم ہوں، یہودی، عیسائی یا کسی اور مذہب و مسلک سے ان کا تعلق ہو،جب بھی کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑتی ہے تو سب سے پہلے اس پیدا ہونے والے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے کہ یہ مرض کہاں سے آئی، کس طرح آئی، کیسے آئی اورکس وجہ سے یہ وائرس سے پیدا ہوئی اوراس مرض کی تدارک کے لئے دنیا کے تمام سائنسدان اپنے اپنے طورپہ تحقیقات میں لگ جاتے ہیں، ہرسائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس مرض کی دوائی میں ایجاد کروں تاکہ دنیا میں میرانام رہے ،موجودہ وبائی مرض جسے کرونا وائرس کا نام دیاگیا ہے اس وبائی بیماری نے چائنا سے نکل کر ساری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لیکر اب تک تمام سائنسدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاہے، تمام سائنسدان سرجوڑکراس بیماری کی روک تھام اور اس پرقابو پانے کے لئے مختلف طرح کی تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں ،مگراس وقت تک تمام ترقی یافتہ اور غیرترقی یافتہ ممالک اس نئے وبائی مرض سے نجات حاصل کرنے کے لئے کسی بھی ممکنہ دوائی ایجاد کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے تاحال کورونا وائرس پرقابو پانے کے لئے پوری دنیا کو احتیاطی تدابیراختیارکرنے کے لئے سخت سے سخت وارننگ دیکر بیماری سے متاثرہ تمام ممالک کو لاک ڈاون، ملک ،شہر،گلی ، گاوں تمام دیہات ملکی، بین الاقوامی ایئرلائن، ایئرپورٹس ،سڑکیں، ٹرانسپورٹ ،ملکی و بین الاقوامی کمپنیاں یہاں تک کہ انسانوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا، ایک ساتھ اٹھنا بھیٹنا، شادی بیاہ مسلمانوں پر باجماعت نماز ، نماز جنازہ ، عمرہ اوردیگرتمام اجتماعات پرمکمل پابندی عائدکردی گئی ہے ترقی یافتہ ممالک پیشگی طورپراپنے عوام کے لئے پہلے سے رفاعی وسماجی تراکیب ترتیب دیئے ہیں وہ آڑے وقت اپنے لوگوں کی تمام مشکلات ومسائل پر قابو پانے کے لئے اپنے وسائل کواستعمال میں لاکر اپنے عوام کو ایسے مشکل موقع پر فوری ریلیف دے رہے ہیں، مگربدقسمت اورغریب ممالک تمام نقصانات سے گزرکر ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے خیرات کے امید میں بیماری بھوک افلاس سے تڑپ تڑپ کرموت کے منہ میں چلے جانے کے بعد کہیں جاکر کچھ امداد وخیرات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ایسے سخت ، مشکل اورامتحانی وقت میں کسی کے خیرات کے سہارے میں ہمارے ملک کے حکمران کسی بھی موقع کوآڑے ہاتھوں لینے میں کسی بھی شاطرکھلاڑی سے زیادہ موقع کے تاڑمیں رہنے کے عادی ہیں ۔
کورونا وائرس کے خطرے کومحسوس کرتے ہوئے ہمارے ملک سے غریب ممالک نے اپنے اپنے ملکوں کے شعبہ صحت کو سب سے زیادہ فعال اورموثر بنایا ہے اوراس وبائی مرض پرقابوپانے کےلئے تمام وسائل بروئے کارلارہے ہیں لیکن ہماری ملک میں محکمہ صحت کے ڈاکٹروں اوردیگرعملے کو حفاظتی لوازمات دستیاب نہیں ، کیا اس بے سروسامانی میں ہمارے ڈاکٹرزوطبی عملہ اپنے جانوں کوخطرے میں ڈال کر کوروناوائرس کے متاثرہ مریض کی تیمارداری کرسکین گے۔؟
پاکستان میں دوسرا ہفتہ لاک ڈاون میں گزررہا ہے، تمام مزدور دیہاڑی دارطبقہ شہروں سے دور درازعلاقوں میں رہنے والے دہکان چرواہے کے گھروں میں فاقہ ڈھیرے ڈالا ہوا ہے دورکے ٹرانسپورٹ بند ہے، شہروں میں دیہاڑی دارکی مزدوری لاک ڈاون ہے، بیماری کی خوف سے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں ، بوڑھے فاقہ کشی پرمجبورہیں جوان بے روزگاری سے خودکشی پہ مجبور ہورہے ہیں، حکمران اس امید میں دامن پھیلائے ہوئیں ہیں کہ کورونا وائرس سے جانی نقصانات زیادہ سے زیادہ ہوں تاکہ امدادزیادہ سے زیادہ ملیں۔
آج بلوچستان جس حالت سے گزر رہی ہے، وہ انتہائی دردناک ہے، یہاں نہ مرکزی حکومت توجہ دینے کی زحمت کررہاہے نہ صوبائی حکومت کی کوئی خاطرخواہ انتظام نظرآرہاہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بلوچستان کے لوگ انسان ہی نہیں ہے، جام حکومت اپنے تمام وزراء کے ساتھ کورونا وائرس کے خوف سے معلوم نہیں کہ کہاں چھپ گئے ہیں ،صوبائی حکومت کے ساتھ دیگراسمبلی ممبران و حزب اختلاف ، ایم این ایز سینیٹرز ایسے غائب ہوگئے ہیں کہ چراغ لیکر ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔
بلوچ سرزمین وہ بدقسمت سرزمیں ہے جوتمام معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود اس کے باشندے غربت کی آخری لکیر پہ زندگی گزار رہے ہیں ،یہاں پہلے ہی سے صحت کی تمام سہولیات ناپید ہیں، سالانہ سینکڑوں مائیں ڈلیوری کے کیسز میں جان سے ہاتھ دھوبھیٹتے ہیں ،سینکڑوں لوگ کینسرجیسے موذی مرض سے ایڑیاں رگڑرگڑکرموت کے منہ میں چلے جارہے ہیں ہزاروں لوگ خستہ حال شاہراہوں پہ سڑک حادثات سے جانبحق ہوتے ہیں ، دیگرآفات جیسے سیلاب زلزلہ یہاں توہمارا شمارہی نہیں ہے، اب اگرکورونا وائرس سے چالس پچاس ہزار لوگ بلوچستان میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو پاکستان کے مقتدرہ کو کیا فرق پڑیگا۔
ظلم ناانصافی کی انتہا دیکھیں کہ کوئٹہ کے ڈاکٹرز اپنے حفاظتی تدابیرکے لئے خود چندہ کرکے سامان لے رہے ہیں اس بے سروسامانی میں وہ کورونا وائرس کے مریضوں کی کیسے علاج کرینگے، جب تک ڈاکٹرزاس بیماری سے خود غیرمحفوظ ہیں وہ کوروناوائرس کے مریض کوکیا تحفظ دینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔