بنیادی شہری حقوق اور آئین پاکستان
تحریر : گہرام اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ملک میں اظہار آزادی رائے کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ آج تک ہم نے کبھی بھی ایسے موضوعات پہ لکھنے کی کوشش نہیں کی کہ جسکی وجہ سے ملکی آئین و قانون کے ساتھ ساتھ ملکی سالمیت کے خطرے کا سبب بنے۔ ہم اُس دائرے کار کے اندر رہتے ہوئے جو کہ آئین پاکستان کے 1973 کی آئین میں شہریوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق جو کہ آئین کے دفعات 8 تا 28 تک بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے مسائل سے دوسروں کو آگاہ کرنے کے لیے اُن تمام چیزوں کا پابندی کیساتھ خیال رکھا، جسکی آئین پاکستان ہرگز اجازت نہیں دیتی ہے۔ ہم جب بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں اسکی اجازت ہمیں آئین پاکستان دیتا ہے، مثال کے طور دیکھا جائے اسوقت بلوچستان سمیت ملک بھر میں ایک اہم مسئلہ لاپتہ افراد کی بازیابی کی ہے اس بارے میں آئین پاکستان کے “آرٹیکل نمبر10 کے تحت کسی بھی شخص کو اسکی گرفتاری کے بعد جلد از جلد اس کی گرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے گا اور اسے اس کے قانونی مشیر یا وکیل سے رابطہ کرنے کی سہولت دی جائے گی، علاوہ ازیں 24 گھنٹے کے اندر علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا’ مگر بلوچستان ، سندھ اور جہاں جہاں لاپتہ افراد کامسئلہ ہے صورتحال اسکے برعکس ہیں۔
بلوچستان میں اسوقت سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں اور انکے لواحقین ماما قدیر کی سربراہی میں سالوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تاحال علامتی بھوک ہڑتال پہ بیٹھے ہیں۔ اسی طرح آئین کے “آرٹیکل 19 اور 19 اے پاکستان کے تحت ہر شہری کو آزادی تقریر و تحریر کا حق حاصل ہے” اور میڈیا اور پریس بلکل آزاد ہوں گے مگر یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ صحافت کس حد تک پابند سلاسل ہے جمہوری دور ہوتے ہوئے بھی بدترین سنسرشپ آمروں کی دور کی یادوں کو تازہ کردیتی ہے، اب سنسر شپ سے سلف سنسر شپ تک پابندی پہنچ چکا ہے۔ میڈیا پہ بدترین پابندی کی وجہ سے عوامی مسائل پہ کوئی بات نہیں کرسکتا۔ اسوقت بے شمار ایسے صحافی ہیں کہ جو اس بدترین سنسر شپ کا شکار ہیں، اور انکے خلاف انتقامی کاروائی کی جارہی ہے ۔ کوئی اپنے مسائل پہ کھل کے اظہار نہیں کرسکتا اگر اظہار کرے بھی تو میڈیا پہ انکی آواز کو روکا جاتا ہے۔
یہاں میں بلوچستان کا حوالہ دیتا چلوں کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، لاپتہ افراد کے ایشو سے لیکر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت و بیروزگاری پسماندگی اس صوبے کے مقدر میں لکھا ہوا واضح نظر آتا ہے، مگر ان تمام صورتحال پہ کوئی بھی کھل کے اظہار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ میں اپنے ووٹ سے اپنے نمائندے کو منتخب کرنا چاہتا ہوں تو یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری ووٹ یا رائے کو کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس پہ بھی کھل کر اظہار نہیں ہوسکتا جیسا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر مسلم لیگ کے بیانیے کو سُنتے ہیں کہ ” ووٹ کو عزت دو” اب اس نعرے سے ملک کے سب سے بڑے پارلیمانی جماعت کا بیانیہ بن چکا ہے اسی بیانیے کی وجہ سے وہ اور انکے بلوچستان کے اتحادی نیشنل پارٹی بھی بھگت رہی ہے۔
اس سے جڑا ایک اور بنیادی حقوق ہے آئین پاکستان کے ” آرٹیکل 25کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، جب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال تک کے تمام شہریوں کو مفت بنیادی ضروری تعلیم دیا جائے، جبکہ ہمارے ہاں برائے نام سرکاری تعلیمی ادارے تو قائم ہیں، مگر انکی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بلکل نہیں ہیں۔ اس فرسودہ نظام تعلیم میں ایک شعوری تعلیم یافتہ انسان اُبھر کر سامنے نہیں آتا بلکہ اس ملک اور ملک کے حکمرانوں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ خود اپنے بنائے ہوئے نصاب اور نظام تعلیم سے مطمئین نہیں ہیں، اسکی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ کسی بھی ایلیٹ یا سرکاری ملازمین کے بچے، نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ جب تک حکمران خود اپنے بچوں کو سرکاری سکولز میں داخلہ نہیں دیتے ہیں تو عام شہری کیسے یقین کرے گا کہ ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج ہے۔
ہماری بدبختی ہے کہ ہم نصاب کو بناتے وقت یہ خیال نہیں کریں گے کہ کیا اس سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کو مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرسکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ سلیبس بنانے والوں کے اپنے بچے اسکول پڑھتے نہیں ہیں۔ اس سلیبس سے یہ توقع نہیں کی جاتی کی ایک لکھا پڑھا شعوری سماج کی تعمیر میں رہنمائی کرسکتا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے رجحان نے غریب اور امیر کے درمیان ایک فرق پیدا کیا ہے، جب تک نجی تعلیمی اداروں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے تب تک مزدور کا بچہ اسکا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تمام شہری برابر ہیں تو اس کو مزید ثابت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسوقت تمام مکاتب فکر اس نظام کے اندر بہت ساری چیزوں پہ اختلاف رکھتے ہیں، اُنکا خیال ہے کہ مہذب ممالک میں انسانی سماجی آزادی کے معیار کے مطابق ہمیں اُس پہ پورا اُترنے کے لیے ملکر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔