بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے
تحریر: واھگ بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
27مارچ 1948 کو جب بلوچستان پر بزور شمشیر قبضہ کیا گیا۔ تو اُس وقت سے قابض ریاست کی طرف سے بلوچ کو دھوکہ دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے۔ لیکن بلوچ سرزمین کے عظیم فرزندوں نے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کیا پاکستان کے سفید جھوٹ کو قوم کے سامنے لائے اور قوم کو حقیقت سے آگاہ کیا۔
آج بھی ریاست پاکستان بلوچستان کے بلوچ نوجوان کو مختلف ڈراموں کے ذریعہ سے قومی مسئلہ سے دور کرنے کی کوشش کررہی ہے اور نوجوانوں کو اپنی چنگل میں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
کبھی بلوچستان کے مسئلے کو بےروزگاری کا مسئلہ کہہ کر لوگوں کو کی توجہ کو دوسری جانب مرکوز کرنے کی کوشش کیجاتی ہے، تو کبھی بلوچستان کے مسئلے کو سرداری نظام کے نام پر تو کبھی بلوچستان کی قومی جنگ کو مذہبی جنگ کی صورت میں پیش کرتی ہے۔ تو کبھی اس ناخواندگی کا مسئلہ ٹہراتی ہے۔ کبھی اس کا ذمہ دار ٹرائیبل سسٹم کو ٹہرایا جاتا ہے۔ تو کھبی بلوچ راجی جنز کو دہشتگردوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
ان تمام ڈراموں کو آگے بڑھانے والے چند ٹکے کے پاکستانی آرمی کے دانشور ہیں۔ جو بلوچ قوم کے حقیقی مسئلوں سے نظر ہٹا کر ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال کچھ یوں ہے کہ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو سٹیٹ کی جانب سے یار محمد رند کے ذریعے ہراس اور بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ ان کے اس وقت جاری احتجاج کو ختم کیا جائے۔ تو وہاں پر چند ٹکے کے پاکستانی اور فیسبکی انٹلکچولز نے اس مسئلہ کو پدر شاہی نظام سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ مسئلہ پدرشاہی یا مادر شاہی کا نہیں تھا۔
کچھ پاکستانی اور فیسبکی دانشور بلوچستان کے مسئلے کو مکمل طور فیمنزم کا مسئلہ کہتے ہیں اور بلوچستان سے عورت مارچ کو نکال کر اپنے آپ کو فیمنسٹ کہتے ہیں۔ لیکن یہ فیمنزم کے ماننے والے بلوچ ماؤں اور بہنوں کے اغواء اور زیادتیوں پر خرگوش کی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ یہ فیمنسٹ ہانی گل بلوچ، گل بی بی بلوچ یا آوران میں لاپتہ کی گئی۔ بلوچ ماؤں پر بات تک کرنے سے ڈرتے ہیں اور گھر کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو لاکر بلوچ اور بلوچستان سے جوڑتے ہیں۔
کبھی بلوچ کو ووٹ اور سیاست کے نام پر دھوکہ دے کر ان کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھاتے ہیں۔ جس کو شہید بالاچ مری نے ٹشو پیپر کہہ کر رد کر دیا تھا۔ آج بھی ڈاکٹر مالک اور سردار اختر مینگل جیسے لوگ بلوچوں کو یہی راستہ بتاتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود جانتے ہے کہ ان کی خود کی حیثیت ایک ٹکے کی بھی نہیں، اگر یہ پارلمینٹ بلوچ کے درد کا مداوا کرسکتی ہے تو کیوں پچھلے 70 سالوں نے ان نام نہاد قومی سیاستدان نے خود بلوچ کی سرزمین کو پاکستان کے بھٹیوں اور قریشیوں اور نیازیوں کے حوالے کیا اور ڈرامہ بنا کر سیاستدان کو آگے لایا جاتا ہے۔ یہ موجود سیاستدان خود سرکار کی سرپرستی میں خود لاپتہ افراد کو اغواء کرتے ہیں اور پھر ان کے فوٹو کو جا کر پارلمینٹ میں دکھا کر اور چار پانچ جذباتی جملے کہا کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔
تو کوئی ریاست کا چمچہ آکر وائس فار بلوچستان یا raising youth Balochistan کے نام پر بلوچوں کو آرٹ اور ادب سکھانے کی کوشش کرتا ہے اور ان کی فوٹو سیشن کرتا ہے اور اپنے آپ کو بہت ہی زیادہ قوم پرست اور بلوچ سرزمین کا وراثت تصور کرتا ہے اور تو کوئی آکر بلوچ کو کشمیر کے حق میں ریلیاں نکالنے کا کہتے ہیں لیکن بلوچ اور بلوچستان کے مسئلے پر وہ بے سما دکھائی دیتے ہیں۔ آج کل بلوچ سماج ایک نئی بات سننے کو مل رہی ہے کہ انڈیا کشمیر پر ظلم کررہا ہے۔ ہماری خاموشیوں کی وجہ سے ہم پر خدا کا عذاب آیا ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ ایسے ہیں ویسے ہیں تو وہی بلوچ بلوچستان میں ہونے والے ظلمت پر بات تک نہیں کرتا ہے۔
آج کے بلوچ نوجوان کو مکمل اس قابض ریاست اور اس کے پالیسیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے. کہ وہ اپنے وجود کا احساس کرسکیں اور اپنے حقیقی مسئلے کو تلاش کر اپنی اس بیماری کا علاج کر سکیں۔
بلوچ قوم کے ہر فرزند کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ کا مسئلہ غربت، بےروزگاری، سردار، ٹرائبل سسٹم، سلیمانی، مکرانی، مری، بگٹی مذہبی، شیعہ، سنی، ذگری، نمازی، شوشلزم، مارکس، فیمنزم، ناخواندگی، بیماری کا نہیں ہے بلکہ بلوچستان کا مسئلہ آقا اور غلام، ظالم اور مظلوم، قبضہ گیریت اور بے بسی، ملک اور نوکر، غلامی، colonizer اور colonized کا ہے اور اس کا واحد راستہ بلوچستان کی آزادی اور خودمختاری ہے۔
بقول بابا خیربخش مری کہ “ہم بیمار ہیں علاج چاہتے ہیں. اب یہاں بات بابا والی ہے کہ ہم غلام ہے اور آزادی چاہتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔