بلوچستان کا مدعا اسلام آباد کے بدلتے حکمرانوں کے تیور
تحریر: چیئرمین واحد رحیم
دی بلوچستان پوسٹ
عالمی تغیر و تبدل پذیر حالات اور عالمی سطح پر طاقت و قوت کے توازن میں بدلاو کے واقعات اس خطے میں مفادات کے تحفظ و دوام میں باہم ٹکراو کے نتیجے میں بنتے بکھرتے اتحاد اور اس کھیل میں نئے ابھرتے کھلاڑیوں کی کلابازیاں، کارپوریٹڈ میڈیا کی مانگ میں اضافے کے ساتھ تجزیہ نگار اور مبصرین کے لیے مباحثے کا سامان فراہم کررہا ہے- یک قطبی دنیا کے جمعدار امریکہ بہادر کے عروج گذشتہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کی کامیابی ایک نیا باب اور نئے موڑ پر منتج ہوا چاہتا ہے -اور 9/11 کے بعد دنیا پر روب و دبدبے کا بھرم قائم کرنے “دہشت گردی” کے نام پر ہر طرف جنگ قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے رکھا ہے- اس میں افغانستان سے مشرق وسطٰی میں بری طرح پھنس کر مشکلات کا سامنا کر رہا- ایسے میں ٹرمپ جیسے صدر کو لانا ہیجانی کیفیت کا عکاسی کرتا ہے اور اس کی کمزور و ناتواں پوزیشن میں زوال پذیری کی طرف گامزن ہونے جیسے تاریخی شکست و ریخت کا سارا ملبہ ٹرمپ کے کردار اور رویہ پر تهونپا جائیگا- جس سے نئی ابھرتی معاشی و اقتصادی قوت چائنا بھرپور فائدہ اٹھانے کی درپے ہیں- اس ضمن میں BRI ون روڈ ون بیلٹ کا منصوبہ کرہ ارض کے کونے کونے پھیلانے کی جتن کررہے ہیں- جس کا کل حجم 900ارب ڈالر سے زائد بتایا جاتا ہے- جس میں چائنا کی صنعتی ترقی پیداوار کی کھپت، سٹریٹجک اور دفاعی امور قابل غور لائے جاتے ہیں- جس میں سی پیک آزمائش کے طور پر خشت اول ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے-
اس پلان کو گریٹ گیم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کا مرکزی کردار گوادر کو گردانا جاتا ہے، جو آبنائے ہرمز کے سرے پر واقع جہاں سے خلیج فارس کی تیل و تجارتی گذر ہوتی ہے- جہاں پہلے سے امریکہ بہادر کی جمعداری قائم ہے، چائنا کی آمد اس کے لیے خطرے کا باعث بنتا جارہا ہے- اسی بنا پر مفادات کی ٹکرانے میں 8 تلاشنے اور نئے کھلاڑیوں کی ابھار کھل کر سامنے آنے کا سما عیاں کرتا ہے-
ہمارے حکمران جن کا سی پیک میں کردار محض منصوبے میں شامل تعمیراتی سلسلے میں فیتا کاٹ کر افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے کا شوق پورا ہوتا ہے- البتہ منصوبے میں شامل پراجیکٹس سارے اسلام آباد اور پنجاب کو سنوارنے کے کام آرہے ہیں اور گوادر بلوچستان محض چائنیز کے سہولیات فراہم کرنے کی خاطر لوازمات کی تعمیر و تزئین تک محدود ہے لیکن اس کے مضر اثرات مرتب ہونے کی میں وسیع بلوچستان اور پرکشش گوادر قربانی کا بکرا بنائے جانے کے لیے تیار کئے جارہے ہیں- جس کی مثال حالیہ دورہ وزیراعظم کپتان خان صاحب کی گوادر ائرپورٹ کی سنگ بنیاد رکھنے اور مغربی روٹ کے افتتاحی تقریب سے بهاشن میں اظہار خیال سے با آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے -بلوچستان کو نئی نظر سے دیکھنے کی بات ہے تو وہ نظر آئے کہاں سے تیسری آنکھ پیوند کاری کرنی پڑے گی جس بلوچستان میں سکت نہیں- دوسری بات جو خان صاحب نے اشارہ دیا کہ بلوچستان کے عوام اقلیت میں تبدیل ہونے سے ڈرتے ہیں اس لیے فنی و تیکنیکی تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے- وہ میرے خیال میں جادوئی فن سیکھنے کا مشورہ دے رہے جہاں گوادر کے لوگ ایک بندہ چار نظر آتا ہو یا پھر سال قبل چائنا کی ایجاد دیکھنے ملا ایک چادر انسان اپنے سامنے اٹھانے سے اس کا وجود غائب ہوتا نظر آتا ہے- جس میں باقاعدہ کیمرے کی مدد اس کپڑے کے آر پار دکھایا گیا تو آدمی کھڑا چادر سامنے اٹھایا ہوا لیکن کوئی وجود باقی نظر نہ آئے- تو باہر کی آبادی کو اسی چادر میں اوڑھ کر آباد کیا جائے گا لیکن اس کی تربیت مقامی لوگوں کو حاصل کرنا چاہئے کیونکہ مسئلہ یا ڈر بھی تو ان کا ہے- صحیح نشاندہی کی ہے جناب وزیراعظم نے۔
باقی جو باتیں بلوچستان سے زیادتی کی ہیں وہ ہر نئے حکمران کی طرف سے الاپتے راگ کا فسانہ ہے- جو حقیقت میں یہاں کے اصل وارثوں کی تمسخر اڑانے کے مترادف ہے – یہ تو اسلام آباد سے آئے حاکموں کا وطیرہ رہا ہے -سوال بلوچستان سے تعلق رکھنے والی منتخب قیادت کا کردار ہے، اس میں آشیرباد۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔