نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا بلوچستان کا مسئلہ پارلمینٹ میں نہیں اقوام متحدہ میں حل ہوسکتا ہے، بلوچستان آج معاشی حوالے سے دنیا کے پسماندہ ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے تعلیم و صحت جیسے بنیادی سہولیات آج بھی ناپید ہیں آج بھی صحت کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ ہے زچہ وبچہ اموات کے حوالے سے سومالیہ کے بعد بلوچستان میں شرح اموات زیادہ ہے ساٹھ فیصد بچوں میں خوراک کی کمی موجود ہے، بجلی نہ ہونے کے برابر ہے ،پورے بلوچستان میں گیس صرف کوئٹہ میں موجود ہے یعنی وہ بنیادی ضروریات جو اکیسویں صدی میں ہر انسان کا بنیادی حق ہے بلوچ عوام ان سےمحروم ہے، آج سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی پیمانے پر پھیل گیا ہے کہ بجلی و گیس پہنچانا ریاستوں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا پچھلے 72 سالوں میں بلوچ کا مسئلہ پارلمینٹ میں حل نہیں ہوا کیونکہ اسلام آباد بلوچستان کے مسئلوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہے، اسلام آباد کو صرف بلوچستان کے قدرتی وسائل اور جغرافیائی حدود سےلگاؤ ہے
ماضی میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ کئی بار بلوچستان سے معافی مانگی گئی، مگر ظلم و ذیادتیوں کا سلسلہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتا ہے یہ معافی ایک سیاسی چال ہے کہ عالمی دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام آباد کو اپنے کئے پر افسوس ہے اور وہ اسکی معافی مانگ رہا ہے مگر اس معافی کے پیچھے بلوچستان کا مزید استحصال کیا جاتاہے اور بلوچستان میں حقیقی جمہوریت وجود نہیں رکھتی جو بھی حکومت بنتی ہے وہ الیکٹ ہوکر نہیں سیلکٹ ہوکر آتی ہے جسکی موجودہ مثال آج کی صوبائی اور وفاقی حکومت ہے،
اس منافقانہ عمل کو اسلام آباد نے خود عالمی دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بلوچستان میں ہورہی ہیں، بےروزگاری سے تنگ آکر عوام اپنی زندگیوں کا خاتمہ کررہے ہیں کچھ عرصہ قبل تربت میں نوجوان بلوچ گلوگار نبیل قادر نے تنگ دستی سے بیزار ہوکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ایسے بہت سے واقعات بلوچستان میں ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں مگر صوبائی حکومت اور اسلام آباد کو بلوچ کے مرنے سے کوئی تعلق نہیں تعلق صرف بلوچستان سے حاصل شدہ فائیدوں سے ہے۔
ترجمان نے کہا پارلمینٹ میں بلوچ خواتین کی گرفتاریاں اور ان تشدد پر کوئی بات نہیں ہوتی آج گوادر میں بلوچ خواتین پر سیکیورٹی فروسز کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ترجمان نے کہا اسلام آباد دنیا کو کشمیر کے اوپر ہونے والے ظلم کے بارے میں متوجہ کررہا ہے مگر دوسری طرف خود بلوچستان میں بلوچوں پر ظلم کررہا ہے جسکی مثال ہزاروں بلوچ لاپتہ افراد ہیں،
عالمی دنیا کو اپنی توجہ بلوچستان کی طرف کرنے کی ضرورت ہے اگر اس وقت عالمی دنیا نے بلوچستان کے حقوق کے لئے ساتھ نہیں دیا تو مظلوم و محکوم اقوام کا عالمی دنیا سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔
ترجمان نے آخر میں کہا موجودہ دور میں بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوانوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غیر سیاسی نوابوں, سرداروں اور نام نہاد لیڈروں کا ساتھ دینگے یا این ڈی پی کے ساتھ کے مل کر نظریاتی اور سائنسی بنیادوں سیاست کرکے اپنے مستقبل کا انتخاب کریں گے فیصلہ بلوچ قوم کے اپنے ہاتھ میں ہے،موجود مسلط کردہ پارلیمانی نظام ایک لعنت ہے۔