بلوچستان سماجی تبدیلی اور تعلیم – خالق بلوچ

163

بلوچستان سماجی تبدیلی اور تعلیم

تحریر: خالق بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لفظ سکلولا قدیم یونانی تہذیب میں فرصت یا تفریح کے دوران سیکھنے کے لئے فالتو وقت کو کہا جاتا تھا جس سے بعد میں لفظ سکول نکلا ، قبل مسیح یونان کی تہذیب میں تعلیم صرف اشرافیہ کی دسترس میں ہوا کرتا تھا جس کے پاس فرصت اور تفریح کے لے فالتو وقت میسر تھا، اسی عہد میں سقراط، افلاطون اور ارسطو نے اپنے فرصت اور فالتو وقت میں فلسفہ، تعلیم،مذہب پر بے شمار کام کیا، ان عظیم یونانی فلسفیوں کے بعد اور بہت سارے دوسرے فلاسفر پیدا ہوئیں، جنہوں نے فلسفہ، سائنس، شہریت، معیشت اور نفسیات کے موضوع پر وسیع کام کیا، سلطنت روم کی زوال کے بعد جب قسطنطنیہ فتح ہوا تو قدیم علوم سامنے آئے اور ان کی بدولت یورپ میں Renaissance اور ریفارمیشن کی تحریکیں وجود میں آکر یورپ میں طویل ڈارک ایجز کا خاتمہ کرکے انسانی تاریخ کا دہارا موڑ دیا، ان واقعات کے بعد یورپ میں ادب، سائینسی علوم، فن تعمیر اور صنعتی و جدید ایجادات کا ایک تیز سلسلہ شروع ہوا جس سے برطانیہ میں صنعتی انقلاب رونماء ہوا، بادشاہتوں کا خاتمہ اور جمہوریت و دستوری حکومتیں قائم ہوئیں، اس کے بعد جن جن قوموں اور معاشروں نے تعلیم کو اہمیت دیکر اس کی فروغ پر سرمایہ کاری کی وہ معاشرے سائنس، ٹیکنالوجی، ایجادات اور دیگر علوم میں بے پناہ ترقی کرکے دنیا پر غلبہ حاصل کی اور جن قوموں نے تعلیم کو اہمیت نہ دی وہ نوآبادیاتی غلامی، معاشی پسماندگی کا شکار ہوکر آج تک تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملک کہلاتے ہیں اور ضروریات زندگی کی تمام اشیاء اور ٹیکنالوجی کے لے مغرب پر انحصا کرتے ہیں۔

تعلیم کے کثیرالجہتی مقاصد ہوتے ہیں، تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ تعلیم کے کچھ دوسرے اہم مقاصد بھی ہوتے ہیں جن میں ثقافتی و اخلاقی اقدار کا فروغ، معیشت اور پیداواری قوتوں کو چلانے کے لے ہنر مند افراد کی فراہمی، حکومت و معاشرے کی نظام کو چلانے کے بنیادی اصولوں سے واقفیت، ایجادات کی صورت میں ٹیکنالوجی کا حصول، غربت کا خاتمہ ،معیار زندگی کی بلندی اور قومی پیداوار کی ترقی سمیت دوسرے عوامل شامل ہیں۔

جہاں بہت سارے معاشروں میں حکومتیں تعلیمی نصاب کو اس طرح تشکیل کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی سوچ، مزاج، نفسیات، اخلاقیات، سماجی اقدار اور سیاسی شعور کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال کر لوگوں کو غلام رکھا جائے اور آسانی سے ان کا استحصال جاری رکھا جاسکے ،لیکن دوسری طرف لبرل، روشن خیال اور آزادانہ تعلیمی نظام نہ صرف کروڑوں انسانوں کو غربت سے نکال کر اعلیٰ تہذیب فراہم کرتا ہے بلکہ معاشی و سماجی ترقی میں بھی بنیادی کردار کا حامل ہوتا ہے۔

بلوچستان پاکستان کا سب سے پسماندہ خطہ ہے، جہاں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، بلوچستان میں معیار زندگی کو بہتر بناکر لاکھوں انسانوں کو غربت سے نکال کر سماجی و معاشی ترقی دینے کا حل صرف اور صرف جدید تعلیم دینے میں ہی مضمر ہے، جب بلوچستان کی ترقی تعلیم سے وابستہ ہے تو آج زرا جائزہ لیتے ہیں کہ صوبے میں تعلیم کا کیسا نظام رائج پے اور تعلیم کی بڑھوتری کے لے حکومتی سطح پر کیا منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

صوبائی حکومت نے رواں مالی سال تعلیم کے لے 60 ارب روپے مختص کیے ہیں جن میں سے 48 ارب ثانوی اور 13 ارب اعلٰی تعلیم کے لے مختص کئے گئے ، اتنی خطیر رقم مختص ہونے کے باوجود آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ بلوچستان میں 70 فیصد بچے سکول نہیں جاسکتے، اس کی وجوہات میں جو اہم وجہ ہے وہ یہ ہے کہ صوبے کی 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے اور اس معاشی کیفیت میں آبادی کا وسیع حصہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے کسی محنت مزدوری میں لگا دیتے ہیں تاکہ گھر کی آمدنی پورا کیا جاسکے، اس کے علاوہ دیہاتوں میں متعدد سکول بند پڑے ہیں یا سکول کا سرے سے کوئی عمارت ہی نہیں اور وسیع و عریض بلوچستان میں بہت سے دیہاتوں میں سکول کا وجود ہی نہیں۔

صوبے کے شہری علاقوں میں بھی تعلیمی اداروں کی حالت اتنی اچھی نہیں، ہزاروں سکول بغیر چھت، بغیر عمارت اور کچھ سکولوں کی عمارت اتنے خستہ ہیں کہ ان کو خطرناک قرار دی گئی ہے، 37 فیصد سکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں تقریباً 14 فیصد استاد بوگس اور جعلی طریقے سے بھرتی ہوئے ہیں جو گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں، صوبے میں لڑکوں کی شرح خواندگی 37 فیصد ہے جبکہ خواتین کی شرح خواندگی محض 15 فیصد ہے، بلوچستان کے اکثریتی سکولوں میں بنیادی ضروریات جیسے پانی، باتھ روم، بجلی، فرنیچر، چاردیواری تک موجود نہیں ہے، اکثر سکول گھوسٹ ہیں یعنی جن کا وجود زمین پر نہیں مگر یہ سکول کاغذوں کی حد تک وجود رکھتے ہیں،لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ان سکولوں کے فنڈز باقاعدگی سے جاری کیئے جاتے ہیں اور ان کے پوسٹوں پر تقرری بھی ہوچکی ہے اور ان گھوسٹ سکولوں کی طرح ان کے ملازمین بھی گھوسٹ ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں 27 لاکھ بچوں کو سکول میں ہونا چاہئے مگر بد قسمتی سے 18 لاکھ بچے سکول نہیں جارہے اور صوبے میں صرف 9 لاکھ بچے سکول میں داخل ہیں اور ان میں سے بھی اکثریت میٹرک کرنے کے بعد اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔

ایک ایسے صوبے میں جہاں آبادی کا 50 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں اور جہاں شرح خواندگی انتہائی کم اور 18 لاکھ بچے سکول سے باہر ہوں وہاں سماجی، معاشی اور انسانی ترقی کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔

میرا زاتی تجربہ ہے کہ ہماری سیاسی، انتظامی و اصل قوت حاکمہ کا یہ نیت ہی نہیں کہ وہ بلوچستان کی مایوس کن تعلیمی صورتحال پر ترس کھا کر اس کی بہتری کے لے ہنگامی اقدامات اٹھائیں، اس امر کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ صوبے میں تعلیم کے دو محکمے ایک سیکنڈری ایجوکیشن اور دوسرا ہائیر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کا محکمہ ہے،ان دونوں محکموں کے مجموعی ملازمین ایک لاکھ سے کچھ کم یا زیادہ ہونگے اور صوبائی وسائل کا بڑا حصہ بھی انہی محکموں پر خرچ کیا جاتا یے، تعلیم کے ان دو محکموں کے انتظامی، مالی و منصوبہ بندی کے معاملات سیکرٹریٹ اور ڈائریکٹوریٹ سے چلایا جاتا ہے. سیکرٹریٹ اور ڈائریکٹوریٹ کے علاوہ ثانوی تعلیم کے انتظامی دفاتر ڈویژنل، ضلعی و تحصیل سطع پر بھی ہیں مگر اصل اختیارات کا منبع و مرکز سیکرٹریٹ ہی ہے جہاں سے محکمے تعلیم کے انتظامی، مالی، پالیسی سازی و منصوبہ بندی کے فیصلے کیے جاتے ہیں، لیکن محکمے تعلیم کے اس مرکز میں سوائے فنڈز کی اجراء، ٹرانسفر پوسٹنگ، تقرری کے علاوہ منظم و جدید پالیسی سازی و منصوبہ بندی کا شدید فقدان نظر آتا ہے، پتہ نہیں ان دو محکموں میں انتہائی قابل، دیانت دار اور کام کرنے والے افسران کو نہیں چھوڑا جاتا، ان دو محکموں کو ہمیشہ ایڈاک ازم اور جونیئر افسران کے زریعے چلانے کی کوشش کی جاتی ہے، بلکہ سیکرٹریٹ میں کلریکل اسٹاف کو سیکشن آفیسر جیسے اہم پوسٹوں پر بٹھایا گیا ہے، تعلیم کے محکموں میں کرپشن، بوگس تقرری، فنڈز کی خردو برد، گھوسٹ ملازمین و گھوسٹ سکولوں کی بھر مار ہے، لیکن ان بد عنوانیوں کو ہمیشہ تحفظ دیا جاتا ہے بجائے کہ ان کا قلع قمع کیا جائے، حالیہ تقرریوں میں جو بے ضابطگیاں سامنے آئیں، اس نے محکمہ تعلیم میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا کچھا چھٹا کھول دیا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ جس محکمے پر پورے بلوچستان کی سماجی، معاشی و معاشرتی ترقی کا دارو مدار ہے اس کے ساتھ اس طرح کی بہیمانہ کھلواڑ کرکے بلوچستان کو جہالت اور غربت میں رکھنے کی سازش تو نہیں کی جارہی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔