بابو نوروز خان کا سنگر زہری
تحریر: نہال خان زہری
دی بلوچستان پوسٹ
سنہ 1958 میں جب خان قلات احمد یار خان کی گرفتاری کی خبر بابو نوروز تک پہنچی، تو بابو نے اپنے بیٹوں سمیت تمام اُن بہادر اور نڈر شخصیات کو مدعو کیا جو حقیقی بلوچی غیرت کے پاسدار تھے، بابو نوروز خان نے اعلانیہ اپنے صف میں موجود گوریلا جنگجوؤں کو کہہ دیا کہ خان قلات کے گرفتاری کے بعد اب ہمیں قابض کے خلاف کمر باندھ کر لڑنے کیلئے نکلنا ہوگا اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑوں کا رُخ کردیا۔
آپکا لشکر زہری کے پتھریلے اور بُلند چوٹیوں سے ہوتا ہوا، میرگھٹ پہنچے اور اُس کے کاروان کو زہری کے پہاڑ، میدان، بہتے ہوئے چشمے اور مہربان و باغیرت بلوچوں نے پناہ و سہارا دے کر میر گھٹ کے بُلند و بالا سنگروں تک پہنچا دیا۔ اُسی دن پنجابی تخت ایک شیر کی آواز سے لرز اُٹھا اور حرکت میں آکر اپنے فریب کاریاں شروع کردیں۔ یہ بات آج بھی بابو نوروز خان کے چاہنے والوں میں مشہور ہے کہ ایوب خان نے کہا تھا نوروز خان کیا بلا ہے ہم اُس کو سبق ضرور سکھائینگے جبکہ بابو نوروز کی حق میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ “بہادر تو نوروز خان ہے پاکستان کیا بلا ہے”
جب کرخ کے تھانے پر بلوچ جنگجوؤں نے حملہ کردیا اور تحصیلدار کو گرفتار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تو ایوب خان طیش میں آکر فوجیوں کے دستے بڑھا دیئے اور بلوچستان کی جانب بھیج دیا۔ نواب نوروز خان میرگھٹ سے کیل کے پہاڑی سلسلے کو اپنے دفاع کیلئے بہتر سمجھا، اُسی وقت کیل کی جانب روانہ ہوئے جبکہ پاکستانی فوج مکمل جنگ کیلئے مورچہ زن تھی، کیل پہنچتے ہی دشمن افواج کے ساتھ گوریلا جنگ کا ایسا تیکنیکی طریقہ اپنایا گیا جس کی ضرب آج بھی راولپنڈی اور اسلام آباد کے تخت داروں کو سکتے میں رکھا ہوا ہے۔ کہتے ہیں جب فوج بابونوروز خان اور اُس کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے آگے بڑھا تو اُن پر بلوچ جنگجوؤں کی جانب سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی بلکہ اوپر سے پتھر گرائے گئے اور ایک پتھر نیچے تک آتے آتے سینکڑوں پتھر اپنے ساتھ بھی لے آتے اور اسی طرح افواجِ پاکستان بلوچستان کے پتھروں تلے نیست و نابود ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے اور باقی بچے ہوئے دستے بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ جب پتھر گرتے وقت فوجیوں کو ہلاک یا زخمی کررہے تھے تو اسی دوران وہ یہی کہا کرتے تھے کہ” نورووز(نوروز نام اُن کیلئے بولنے میں کافی مشکل تھا) گولی سے مارو لیکن پتھر سے نہیں”
جب پاکستان کے فوجی دستے ہمت ہار کر شکست خوردہ ہوئے تو انہوں نے بابونوروز خان کے فیملی کو گرفتار کرلیا اور پھر دودا اوّل کے ذریعے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھایا گیا کہ آپ نیچے اُترو آپ کے سارے مطالبات پورا کریں گے۔ شیرِ نر بابو نوروز خان جب کیل پہاڑ سے اترے تو دشمن اپنے قسم و وعدے سے منکر ہوکر بابو نوروز خان کو ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا اور اُنہیں سکھر جیل منتقل کردیا گیا۔ آخر حیدرآباد جیل میں انہیں پھانسی کی سزا سنادی گئی جبکہ بابو نوروز کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ اُسی دن سے بلوچوں نے پاکستان کی نام نہاد اسلام پرستی کو فریب قرار دیا اور اسلام کے نام پر جبر کرنے والے ریاست کیلئے ایک ناختم ہونے والا نفرت اپنے اندر بیدار کردیا جو ابھی تک ہر باغیرت بلوچ فرزند کے دل میں موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بابو نوروز خان کے بعد جو امید اُس کے خاندان پر تھی وہ پورا نہیں کرپائے یا اس کے اور وجویات ہیں، مگر بابو نوروز خان بلوچ قوم میں ہر جگہ نمودار ہوئے جس کا واضح ثبوت موجودہ مسلح جدوجہد ہے جس نے بابو کے بندوق کو کبھی گرنے نہیں دیا.
مگر سمجھ نہیں آتا کہ زہری کے موجودہ حالات کو افسوس کہوں یا پھرغیرت کا اُٹھتا ہوا جنازہ کہ جس دھرتی سے بھاول خان گذر کر میرگھٹ پہنچا تھا، جس دھرتی نے اپنے بہادر سپوتوں کو دشمن سے لڑنے کیلئے حوصلہ بخشا تھا، بابو نوروز خان اور سفر خان جیسے نڈر ہستی ہمیں نذر کیا تھا، جس دھرتی کے ہر پہاڑ پر شہیدوں کے ہاتھوں کا چیدہ آج بھی موجود ہیں، مگر اہلِ زہری کا حوصلہ اسی طرح اب خستہ ہے جس طرح پہاڑوں کے دامن میں کوئی پُرانا بستی ہو، جو دھرتی کبھی نوروز خان کا سنگر تھا ایک مضبوط مورچہ تھا اور ایک پناہ گاہ تھی جنگوں کیلئے مشق کرنے کا ایک خوبصورت مرکز تھا آج وہ علاقہ ایوب خان کےملٹری کیمپوں میں تبدیل ہوچکے ہیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔