ایک اور ماں لاپتہ بیٹے کی جدائی میں انتقال کرگئی

437

بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کئی سالوں سے اپنے پیاروں کے واپسی کے انتظار میں ہیں۔ وی بی ایم پی کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے چالیس ہزار سے زائد افراد جبری گمشدگی کے شکار ہیں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔

کوئٹہ سے لاپتہ جان محمد کی والدہ منگل کے روز بیٹے کی جدائی میں انتقال کرگئی۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے جس کی تصدیق کردی ہے۔

جان محمد ولد عبدالرحیم 26 جولائی 2015 سے لاپتہ ہے۔ لواحقین کے مطابق جان محمد کو کوئٹہ برمہ ہوٹل سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے۔

لواحقین کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کرکے اپنا احتجاج کرچکے ہیں تاہم جان محمد تاحال بازیاب نہیں ہوسکا ہے۔

خیال رہے دس سال قبل کوئٹہ سول ہسپتال سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے عمران گرگناڑی کے والد استاد گامڑ خان گرگناڑی اپنے بیٹے کی بازیابی کی امید لیکر گذشتہ روز وفات پاگئے ۔

اسی طرح ایک روز قبل بی ایس او کے لاپتہ رہنما زاہد کرد بلوچ کے والد بھی وفات پاگئے۔ زاہد بلوچ بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین ہے جنہیں 2014 کو کوئٹہ سے لاپتہ کیا گیا۔

بی ایس او آزاد اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق زاہد بلوچ کو پاکستانی خفیہ اداروں اور فورسز اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا جس کے چشم دید گواہ موجود ہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری دل مراد بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر اس حوالے سے کہا کہ بلوچ قوم کی تاریخ غموں سے بھری ہوئی ہے اور بیک وقت توقعات سے بھی۔ ہم اپنے پیاروں کا انتظار کرتے ہوئے دنیا سے گزرجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کوئی نہیں جانتا ہے کہ یہ امید کب ختم ہوگی اور ایک روشن دن لائے گی۔ الہٰی بخش کرد اپنے بیٹے زاہد بلوچ کے انتظار میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے، جو 18 مارچ 2014 کو لاپتہ ہوگیا۔

دریں اثنا 6 دسمبر 2019 کو کراچی سے لاپتہ شیر جان ولد لال خان سکنہ شاہی تمپ تربت بازیاب ہوگئے۔