امریکہ کو کھولنے کا میرا فیصلہ – جوبائیڈن

312

امریکہ کو کھولنے کا میرا فیصلہ

تحریر : جوبائیڈن

دی بلوچستان پوسٹ

اس وقت امریکہ میں کروڑوں لوگ کورونا کے خلاف برسرپیکار ہیں،لاکھوں لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، لاکھوں لوگ اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے دور اپنے گھروں میں بند ہیں، اور وہ ایک سادہ سے سوال کا جواب مانگ رہے ہیں کہ امریکہ کو محفوظ طریقے سے کھولنے کا کیا پلان ہے؟ ابھی تک ٹرمپ حکومت نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس پلان کو فوری طور پر میڈیکل کرائسس سے موثر انداز سے نمٹنے اور کورونا ویکسین کی تیاری سے شروع ہونا چاہیے، مگر ہم محض گھر بیٹھ کر ویکسین کا انتظار نہیں کرسکتے، جیسا کہ دوسرے لوگوں نے بھی نوٹ کیا ہے، ہمیں ان دونوں کاموں کے درمیان ایک پل باندھنا ہوگا، ہماری قومی حکمت عملی کچھ یوں ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے ہمیں کورونا کے نئے کیسزکو کم سے کم سطح پہ لانا ہوگا، اس کیلئے ہمیں سماجی فاصلے پر عمل جاری رکھنا ہوگا، اور فرنٹ لائن پر لڑنے والے افراد کو ضروری سپلائیز اور آلات مہیا کرنا ہوں گے، صدر ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ ڈیفنس پروڈکشن ایکٹ کے تحت تمام اختیارات استعمال کرتے ہوئے کورونا وائرس کے خلاف جنگ کیلئے ہر دستیاب ہتھیار استعمال کریں، انہیں چاہیے کہ بیان سازی کے بجائے ہر طرح کے فیڈرل وسائل کو منظم انداز میں بروئے کار لائیں۔

دوسری بات یہ کہ ہمیں وسیع پیمانے پر اور تیز رفتاری سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کرنا ہوں گے تاکہ کم سے کم لوگ ایک دوسرے کو چھوئیں، ٹرمپ حکومت کی طرف سے ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کی طرف سے جاری ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ ہم اس ٹارگٹ کے حصول سے کوسوں دور ہیں، ہم اس وقت جتنے ٹیسٹ کررہے ہیں ان کی تعداد اس سے کئی گنا بڑھانا ہوگی، تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کس کس کو کورونا سے انفیکشن ہوچکی ہے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، اس کیلئے وسائل اور عمل چاہیے، اب ہمیں اس بحران کا سامنا کرئے ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں اور ابھی تک حکومت اپنی حقیقی غلطی کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ وہ عوام کے ٹیسٹ کرنے میں ناکام رہی ہے، تیسری اہم بات یہ ہے کہ جیسے جیسے ہمارے ہاں معاشی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوں گی، تو بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگا،، ہمارے ہسپتالوں اور ہیلتھ کیئر سٹاف کو اس ہنگامی صورتحال کیلئے تیار رہنا ہوگا، ان تمام کوششوں کے باوجود امریکہ میں سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز پھر بھی اتنا محفوظ نہیں ہوگا، پبلک ہیلتھ حکام کو کورونا سے متاثرہ افراد کا کھوج لگانے کیلئے موثر کوششیں کرنا ہوں گی، جس علاقے میں بھی یہ وباء پھوٹے وہاں کے مقامی ہسپتالوں کے پاس اس سے نمٹنے کیلئے ضروری عملہ اور آلات موجود ہونے چاہیں، ان جگہوں پر مطلوبہ مدد فراہم کرنے کیلئے ہمارے پاس ایک بہتر فیڈرل سسٹم موجود ہونا چاہیے، ہمارے پاس مزید کسی غلطی کی گنجائش نہیں ہے، اپنی معیشت کو دوبارہ ٹریک پر لانے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس کورونا وائرس سے لڑنے کیلئے ایک موثر منصوبہ بندی ہونی چاہیے، اس لئے اب ہمیں ہیلتھ اور معیشت کی بحالی کو الگ الگ انداز سے دیکھنے کی سوچ ترک کردینی چاہیے، یہ دونوں اب لازم ملزوم ہوچکے ہیں، اگر ہم یہ سب اقدامات کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم زیادہ سے زیادہ بزنس پھر سے شروع کرکے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دوبارہ کام پر واپس لاسکتے ہیں، صورتحال فوری طور پر نارمل نہیں ہوگی، جیسا کہ پبلک ہیلتھ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں زندگی کی سرگرمیاں آہستہ آہستہ شروع ہونے کی توقع رکھنی چاہیے، پہلے دفاتر اور سٹور کھلیں گے اور ان کے بعد کھیل کے میدان اور تھیٹر کھلنے کی امید ہے، اسی لئے ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے جن میں ہماری اکانومی پھر کام کرسکے، اور لوگ اپنی ملازمتوں پر واپس آسکیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہماری خاندان اور چھوٹے بزنس کو پوری طرح سے مالی سپورٹ مل رہی ہے، جب تک یہ سنگین رسک موجود ہے کہ کورونا وائرس پھر سے پھیل سکتا ہے، ہمیں کچھ مختلف حکمت عملی اپنانا ہوگی، اس حکمت عملی کو وضع کرنے کیلئے فیڈرل حکومت کو آگے آنا چاہیے۔

اگر میں ملک کا صدر ہوتا تو میں نجی شعبے سے اعلیٰ ماہرین کو بلاتا کہ آپ تجاویز لے کر آئیں کہ کس طرح محفوظ طریقے سے کاروبار زندگی کو پھر سے شروع کیا جاسکتا ہے، شاید ابھی دفاتر اور کارخانوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وائرس کو دوبارہ پھیلنے سے روکنے کیلئے ورکرز کو وہاں سے دور رکھیں، اور اس کیلئے کچھ متبادل حل تلاش کرنے کی کوشش کریں، ریستوران بھی عملے کی چھانٹی کریں گے اور ابھی ڈنرز شروع ہونے میں کچھ مزید وقت لگے گا، انڈسٹری کے عمائدین سے بات چیت کے بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے لوگ انہی سوالات پر پہلے ہی کام شروع کرچکے ہیں، ٹرمپ کو اب صرف یہ کرنا ہے کہ اس سوچ کو تیزی سے فروغ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ سب کچھ محض بڑی کمپنیوں ہی کو نہیں بلکہ ہر طرح کے چھوٹے بزنس کو بھی دستیاب ہو، اسی طرح میں منظم لیبر اور ملازمین کے گروپس کے ساتھ کام کرنے والی آکو پیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن کو بھی ہدایت کروں گا کہ وہ یہ نشاندہی کرئے کہ اس عرصے میں جائے ملازمت پر ورکرز کو کس قسم کا تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے، اس وقت ہمارے ہیلتھ ورکرز اور ایمرجنسی میڈیکل ورکرز کو تحفظ فراہم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے، خاص طور پر جہاں پہلے ہی ایسی سہولتوں کا فقدان ہے، جب ایک مرتبہ یہ ضرورت پوری ہوگئیں تو میں کہوں گا کہ ڈلیوری ورکرز، ویٹرز، کلرکس اور دیگر پروفیشنلز کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے جائیں، اس کے بعد میں کورونا کیسز میں نسلی امتیاز کا شکار ہونے والوں پر لیزرکی طرح فوکس کروں گا، کورونا وائرس کا رسک ایک محفوظ اور موثر علاج کے زریعے ہی کم کیا جاسکتا ہے، لیکن اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے کہ کورونا وائرس سے ہمیں جس ہولناک خطرے کا سامنا ہے اس کے خاتمے کیلئے ایک مکمل حل تو ویکسین کی تیاری ہے، اسحوالے سے دنیا بھر کے سائنسدان کوشش کررہے ہیں، مگر ویکسین کی تیاری اور اس کا ٹیسٹ تو اس سمت میں پہلا قدم ہے، کافی مقدار میں ویکسین کی تیاری اور پھر ضرورت کی ہر جگہ پر اس کی فراہمی ایک بڑا اور سنگین چیلنج ہے، اس سلسلے میں ٹرمپ حکومت کو چاہیے کہ امریکی عوام کو اپنی تمام تر کوششوں سے بروقت آگاہ کرتے رہے، اس وقت ہم امریکہ کو دوبارہ کھولنے کی تیاری کررہے ہیں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے اس بحران سے کیا سبق سیکھا ہے، حکومت کی طرف سے بروقت منصوبہ بندی، تیاری، دیانت دارانہ تخمینہ سازی اور عوام کو آگاہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ہمیں ہولناک نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے، ہم ایسی غلطیاں دہرانے کے متحمل نہیں ہوسکتے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے، امریکی عوام پہلے ہی بیماری، اموات اور مالی نقصان کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرچکے ہیں اب معاملات کو درست کرنا وائٹ ہاوس کے ہاتھ میں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔