الجزائر کی تحریک آزادی- زاکر بلوچ

901

الجزائر کی تحریک آزادی

تحقیق و ترتیب۔ ذاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تعریف۔
انقلاب تبدیلی کے عمل کا نام ہے یعنی فرسودہ نظام کا خاتمہ کرکے ایک ایسے نظام کو وجود میں لانا جہاں انسانیت کو پیروں تلے نہ روندا جائے انقلاب الجزائر بھی ایک ایسا عمل تھا جہاں الجزائر کے مظلوم و محکوم عوام نے تاریخ کے بدمست ہاتھی فرانس کو شکست سے دوچار کرکے آزادی حاصل کی الجزائر کا انقلاب دنیا کے تمام مظلوم و محکوم قوموں کے لئے ایک نوید ہے کہ اگر قوم مسلسل جہد کرے تو اسے دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست فاش نہیں دے سکتی الجزائری عوام نے اپنی مسلسل جدوجہد مستقل مزاجی ہمت بہادری کے ایسے نقوش پیش کئے جورہتی دنیا تک مظلوموں کےلئے ایک مثال ہے۔

جغرافیہ۔
الجزائر براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے جس کا رقبہ 2381741 مربع کلومیٹر ہے اس کا 80 فیصد علاقہ صحرا پر مشتمل ہے اسکے شمال مشرق میں تیونس مغرب میں مراکو جنوب مغرب میں مغربی صحارا ماراطانیہ اور مالی ہیں جنوب مشرق میں نائجر اور شمال میں بحیرہ روم واقع ہیں الجزائر کے دارلحکومت کا نام بھی الجزائر ہے الجزائر عرب لیگ اقوام متحدہ اور اوپیک کا رکن ہے۔

تاریخ الجزائر ۔
الجزائر ایک قدیم اور تاریخی ملک ہے جسے قدیم تاریخ میں نو میڈین کہا جاتا تھا اس سلطنت کے تعلقات قدیم یونان اور روم کے ساتھ تھے یہ علاقہ اس وقت ایک زرخیز علاقہ تھا۔100 ق ۔م میں اس علاقے میں قرطاجنہ نے آبادیاں بنائیں بربر قبائل نے موقع پاکر قرطاجنوں سے آزادی لی اور بربر ریاست کا قیام عمل میں آیا. 20ق۔م میں رومیوں نے قبضہ کیا 476 عسوی میں رومن سلطنت کا زوال ہوتو بربر پھر آزاد ہوئے بعد و ندال قبائل نے قبضہ کرلیا جو باز نطینیوں کی آمد تک قائم رہا باز نطینی یہاں 8ویں صدی عسوی تک موجود رہے پھر عرب یہاں قابض ہوگئے۔

بربر قبائل قرون وسطی کے دوران زیادہ تر مغرب کے علاقے پر قابض رہے بربر قبائل خود کئی مشتمل تھے قرون وسطی میں مغرب سوڈان اٹلی مالی نائجر سینگا مصر اور دیگر نزدیکی جزائر پر بربروں کے مختلف قبائیل نے اپنی سلطنتیں قائم کیں ابن خلدون نے ان قبائل کی تعداد 12 بیان کی ہے

جب مسلمان عرب 7ویں صدی کے وسط میں یہاں پہنچے تو مقامی افراد کی امیہ سلطنت کے 751 عسوی میں زوال کے بعد بہت ساری مقامی بربر سلطنتں قائم ہوئی، جن میں الغالیہ الموحدون عبدالویں رستموں حمیدیوں اور قاطمی وغیرہ اہم ہیں۔

ہسپانویوں کی شمالی افریقہ میں توسیع پسندوں نے کیتھلوک بادشاہ اور ملکہ کی مدد سے آئبرین کے جزیرہ نما پر قبضہ کرلیا بیرونی چوکیوں پر ہسپانویوں نے قبضہ کرلیا 15 جولائی 1510 کو الجزائر کے بادشاہ کو زبردستی ہسپانوی بادشاہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا گیا بعد ازاں 1516 کو 1300 ترک ہسپانیوں اور 16 بحری جہازوں سے مدد سے ہیاں قبضہ کرکے الجزائر کو سلطنت عثمانیہ سے ملا دیا گیا الجزائر کو خیرالدخن بربر اور اس کے بھائی عروج نے 1517 میں سلطنت عثمانی سے جوڑ دیا 1541 میں مقدس رومن سلطنت کے بادشاہ چارلسن پنجم نے الجزائر پر 65 بحری جنگی جہازوں اور 23,000 فوجیوں کے مدد سے حملہ کردیا اس فوج میؓ 2,000 گھڑ سوار بھی شامل تھے تاہم انہیں بدترین شکست ہوئی اور الجزائر کے رہنما حسن آغا کو قومی رہنما مان لیا گیا الجزائر بہت بڑی فوجی قوت بن کر ابھرا 17ویں صدی میں عثمانیوں کے امریکی بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے پہلی اور دوسری بربر جنگیں ہوئیں دونوں اطراف کی فوجیں دشمنوں کو پکڑنے کے بعد غلام بنادیتی تھیں۔

ان لوگوں کے گہرے اثرورسوخ کی بنا پر اس علاقے کو بربری ساحل کہا جاتا تھا یہ لوگ اکثر یورپی ساحلوں پر حملہ کرکے عیسائیوں کو غلام بنا کر ترکی مصر ایران الجزائر اور مراکو کے بازاروں میں بیچ دیتے تھے رابرٹ ڈیوس کے مطابق 16ویں سے 19ویں صدی کے دوران دس لاکھ سے ساڑھے بارہ لاکھ یورپیوں کو غلام بنا کر پیچا گیا ان لوگوں کی اکثریت اٹلی اسپین اور پرتگال کی ساحلی بستیوں کے علاواں فرانس، انگلینڈ ،آئرلینڈ ،جرمنی، روس، پولینڈ ،سیکنڈے نیویا ،،آئس لینڈ، ہندوستان ،جنوبی مشرقی ایشیا اور شمالی امریکہ سے پکڑی گئی تھی۔

ان حملوں کا اثر تباہ کن تھا فرانس انگلینڈ اور اسپین کے ہزاروں بحری جہاز تباہ ہوئے اور اسپین اور اٹلی کے ساحلوں کا بہت بڑا حصہ غیرآباد ہو گیا 19ویں صدی تک انہی بحری قذاقوں کی وجہ سے ساحلی علاقے غیرآباد رہے۔

1609 سے1616 تک انگلینڈ کے 466 تجارتی بحری جہاز تباہ ہوئے شمالی افریقہ کے شہروں پر طاعون کا بہت بڑا حملہ ہوا اندازا ہے کہ الجزائر میں طاعون کی مختلف وباوں سے سے 3,000 سے5,0000 شہری ہلاک ہوئے۔

فرانسیسی قبضہ۔
فرانس سے افریقی ممالک الجزائر پر 1830 میں حملے کرکے قبضہ کیا اور اپنی ظالمانہ استعماری حکومت کو قائم کیا ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک فرانس الجزائر پر قابض رہا اس دوران الجزائری بڑی تعداد میں فرانس آکر آباد ہونے لگے اور حکومت کے سرکاری دفاتر تجارت تعلیم پر مکمل انکا کنٹرول قائم ہوگیا الجرائی عوام پر طرح طرح مظالم ڈھائے جاتے رہے فرانس نوآبادیاتی نظام میں شہریوں کے انسای حقوق سلب کرلئے گئے تھے یہاں کی زراعت و معدنیات و تجارت نے فرانسیوں کو متاثر کیا الجزائری عوام کی حیثیت غلاموں اور نچلے درجے کے شہریوں کی ہوکر رہ گئی تھی ابتدا میں آزادی کی مختلف تحریکات اٹھیں کو بری طرح سے فوجی قوت کے زریعہ کچل دی گئیں ہزاروں افراد مارے جاتے رہیے استعماری قوتوں کی یہ خاص اسٹرٹیجی رہی کہ سیاسی فوجی معاشی تسلط کے ساتھ اپنی تہذیب زبان اور خاص عیسائیت کا فروغ ہو فرانس نے بھی یہی اسٹراٹیجی مسلم ممالک میں اختیار کی تھی۔

9 نومبر 1954 کو ایک زبردست تحریک آزادی کا آغاز ہوا فرانسیسی افواج کے خلاف زبردست گوریلا و عسکری حملے شروع ہوئے National Liberation Army نے آزادی کی عوامی تحریک کامیابی سے چلائی آزادی کی جدوجہد کو فرانسیسی حکومت نے خانہ جنگی میں تبدیل کردیا تھا 8 سال کے عرصے میں لوکھوں معصوم لوگوں کا قتل عام ہوا الجزائر کی آزادی کیلئے بلا آخر فرانس کو اپنے ملک میں ریفرنڈم کروانے پڑے 8 اپریل 1962 کو ہوئے ریفرنڈم میں 91℅ عوام الجزائر کی آزادی کے حق میں ووٹ دئے دوبارہ 1 جولائی 1962 کو پھر ریفرنڈم ہوا جس میں 99%، عوام نے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالے اسکے ساتھ فرانس نے الجزائر کی آزادی کا اعلان کیا۔

مزاحمت کا اعلان۔
اس زمانے میں اندرون ملک مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں جو آپس میں لڑتی رہتی تھیں اور اس قابل نہیں تھیں کہ متحد ہوکر فرانس کا مقابلہ کرسکیں عبدلقادر نے مختلف قبائل کے آختلافات ختم کیے اور ان کو اس پر آمادہ کرلیا کہ وہ فرانس کا مقابلہ کریں ان قبائل نے 22 نومبر 1832 کو عبدلقادر جن کی عمر اس وقت 25 سال تھی کو اپنا امیر مقرر کرلیا۔

الجزائر مسلمان کی قیادت سنھبالنے کے بعد عبدالقادر نے قصبہ مسکرہ کی مسجد میں فرانسیسوں کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا انہوں نے جلد ہی مغربی الجزائر کے قبائل کو اپنے جھنڈے تلے متحد کردیا اور فرانسیسی فوجیوں کو کئی شکستیں دیں ہیاں تک کہ فروری 1834 میں فرانس عبدلقادر کو مغربی الجزائر کا امیر تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن اگلے سال فرانس سے پھر تصادم شروع ہوگئے اور جنگوں کا یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا۔

شکست و نظر بندی۔۔۔
1839 تک امیر عبدلقادر الجزائر کے ایک تہائی حصے پر قابض ہوگئے اس کے بعد ان کا مشکلات بڑھ گئیں اور فرانسیسی فوجوں کی اکثریت اور جدید اسلحے کی وجہ سے عبدلقادر 21 دسمبر 1847 کو امام شامل کی طرح ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے چند سال نظر بند رکھنے کے بعد انکو رہا کردیا وہ شروع دن میں بروصہ ترکی گئے اور پھر دمشق میں مستقل رہائش اختیار کرلی یہاں سلطان عبدلمجید کے دور میں 1860 میں جب دروزیوں نے عیسائی آبادی کا قتل عام کی تو امیر عبدلقادر نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہزاروں عیسائیوں کی جانیں بچائیں اور اپنے اس طرز عمل کہ وجہ سے سارے یورپ میں خراج تحسین وصول کیا عبدلقادر 26 مئی 1883 میں انتقال کرگئےشکست کے بعد بھی فرانس کے خلاف ملک بھر میں مختلف تحریکیں اٹھیں لیکن ہمہ گیر بغاوت کی شکل اختیار نہ کرسکیں فرانسیسوں نے اپنے ظلم و بربریت سے آزادی کی ہر جدوجہد کو کچل دیا۔

فرانسیسی مظالم۔
جب سے استعمار قابض تھا اس دن سے الجزائریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیں فرانسیسی سامراج نے الجزائر پر شب خون مارنے کے بعد سب سے پہلے جو حربہ استعمال کیا وہ انتشار تھا تاکہ لوگ متحد ہوکر اسکی مفادات کے خلاف خطرہ نہ بنیں اور مردوں کے نام نکالے انہیں ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کرکے ان سے بیگار لی گئی دو سو سال کے عرصے میں عقوبت خانوں میں محصور لوگوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی فرانسیسی طیاروں کی اندھا دھند بمباری نے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا لوگ بھوکے مرنے لگے زرعی زمینوں پر زہر کار سپرے کرکے لاکھوں ایکڑ کھڑی فصلیں تباہ کردی گئی مجبورا” لاکھوں کی تعداد میں مراکش اور تیونس کا رخ کرنے لگے یعنی نقل مکانی کرنے لگے 1950 سے لیکر 1956 کو ایسا حربہ نہیں جسے فرانس نے نہ آزمایا ہوں فرانس نے الجزائر میں اہٹمی دھماکہ کیا تاکہ ایٹمی ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائیں جس کی وجہ سے آج تک اس کے افراد کینسر اور دوسری لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں۔فریڈم ایسوسی ایشن آف فریڈم ریوولوشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 1.5 ملین افراد شہید کیے گئے جن میں سے بہت سے افراد کو بغیر کیس کے قتل کردیا گیا الجزائر کے انسانی حقوق کے ادارے نے عالمی اداروں سے فرانس کا ان کے ملک میں ایٹمی تجربے کرنے پر جس کی وجہ سے ہزاروں افراد جانبحق ہوگئے ہیں مطالبہ کیا ہے کہ فرانس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

اس ادارے نے کہا ہے کہ فرانس کے الجزائر خر قبضہ کے دوران اسرائیل کے ساتھ مل کر اس ملک میں کئے جانے والے مظالم کا۔مادی اور معنوی خسارا پورا کرے۔

فرانسیسی فوج نے شہری آبادیوں اور نہتے باشندوں پر بڑے لرزہ خیز مظالم کئے تاکہ تاکہ الجزائری قوم ہی نابود ہوجائے نہ صرف آبادیوان پر اندھا دھند اور عورتوں تک ایسی اذیت ناک مصائب میں مبتلا کیا جاتا تھا کہ ان واقعات کو سن کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جمیلہ نامی ایک خاتون پر فرانسیسی فوج نے جو ہولناک مظالم کئے اس سے مہذب دنیا کا ضمیر کانپ اٹھا خود فرانس کے اندر وہاں کے دانشوروان نے اپنی حکومت کے خلاف ایک زبردست محاز قائم کیا جس میں شہر آفاق مصنف ثارتر کا پیش پیش ہے اس مصنف کو اپنا ملک چھوڑ کر سوئٹرلینڈ میں پنا لینی پڑی لیکن اس نے گوریلوں کی امداد سے دریغ نہیں کیا اپنی کثیردولت بھی اس نے اس کام کے لئے وقف کردی تھی۔

الجزائر کے باشندوں پر ظلم کے نئے نئے طریقے اختیار کئے گئے ان میں سب سے زیادہ برقی روکا جسم کے نازک حصوں میں ڈورانا ہے ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگ زندہ جلا دئے گئے انھیں پولیس کے بھوکے کتوں کا لقمہ بنایا گیا جنگی قیدیوں کے ساتھ فرانسیسی فوج کا سلوک انتہائی سفاکانہ ہوتا تھا فوجی یونیفارم میں ان کے گرفتار ہونے کے باوجود ان کے ساتھ ادنی مجرموں کے جیسا سلوک کیا جاتا تھا اور جانبازوں کی تلاش میں فرانسیسی فوج دیہاتوں اور آبادیوں کا محاصرہ کرلیتی تھی اور تلاشی کے دوران نوجوانوان کو بلا امتیاز گولی کا نشانہ بنادیا جاتا گھروں کو جلادیا جاتا عورتوں کی آبرو ریزی کی جاتی بچوں کو قتل کیا جاتا اور کوئی ایسا ظلم نہ ہوتا جو آبادی پر نہ ڈھایا جاتا ہو اور تحریک و مسلح انقلاب کو کچلنے کے لئے حکومت فرانس نے زبردست فوج لگائی ہوائی جہاز جٹ بمبار تو پخانہ مشین گن اور کیمائی بم Napalm تک مقامی آبادیوں پر برسائے۔

نیشنل فرنٹ اور قومی آزادی۔
یکم نومبر 1945 کو جنگ آزادی کی ابتدا ہوئی 70 مقامات پر بیک وقت مسلح حملہ کیا گیا گوریلوں نے فوجی اڈوں پولیس کی چوکیوں گولہ بارود اور پٹرول کے زخیروں کو سب سے پہلے اپنے حملہ کا نشانہ بنایا ریل تار ٹیلیفون اور ریڈیو کے سلسلوں کو کاٹ دیا گیا اور آمدرفت کے پلوں کو تباہ کیا گیا اس حملے کے بعد گوریلوں تیونس کی سرحد پر کوہ آرس کے پہاڑی علاقوں میں منتقل ہوگئے اور خود کو گوریلہ یونٹوں میں منظم کرلیا اس مسلح انقلاب کو کچلنے کے لئے حکومت فرانس نے زبردست فوج لگائی ہوائی جہاز جٹ بمبار توپخانہ مشین گن اور کیمائی بم Naplam تک مقامی آبادیوں پر برسائے جانبازوں کی تلاش میں فرانسیسی فوج دہیاتوں اور آبادیوں کا محاصرہ کرلیتی تھی اور تلاشی کے دوران نوجوانوں کو بلا امتیاز گولی کا نشانہ بنادیا جاتا گھروں کو جلا دیا جاتا عورتوں کی آبروریزی کی جاتی بچوں کو قتل کیا جاتا اور کوئی ایسا ظلم نہ ہوتا جو آبادی پر نہ ڈھایا جاتا ہو ابتدا میں جب پہلا مسلح حملہ کیا گیا گوریلوں کی تعداد بہت کم تھی اور ان کے پاس کسی قسم کا ہتھیار نہیں تھا لیکن پہلا حملہ اچانک کیا گیا اس میں فرانسیسی فوج کا بہت سا ہتھیار ہاتھ لگا فوج کی نفری تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور دو تین سال کے عرصہ میں گوریلوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔NLF کا سب سے مضبوط مورچہ کوہ آرس کے پہاڑی علاقہ میں تھا جس کے مقابلہ کے لئے فرانس کی پچاس ہزار بہترین فوج لگائی گئی تھی اس کی کمک کے لئے مزید دس ہزار فوج یورپ سے طلب کی گئی تھی اس کے علاوں گشتی رضاکادمر دستے چھاتہ فوج اور کمانڈو بھی تھے صرف کوہ آرس کے علاقہ میں فرانسیسی فوج کے دو ڈویژن لگے تھے جن کی امداد کے لئے ہوئی جہاز بھی تھے گوریلوں نے فرانس کی جدید ترین فوج سے ابتداء میں گوریلہ طرز جنگ لڑی ان کی توجہ زیادہ تر فوجی اڈوں مواصلاتی نظام اور دشمن کی نفری قوت کے ضائع کرنے پر مرکوز ہیں یکم نومبر 1945 ہی کے حملے میں انھوں نے دشمن سے پہلی مرتب ہتھیار چھینا اور اسی سے انھوں نے فرانسیسی فوجوں کا مقابلہ کیا بعد میں انھیں بعض دوست ممالک سے ہتھیار ملتا رہا گوریلوں کی تعداد دو تین سال کے اندر ایک لاکھ سے زیادہ تجاوز کرگئی تھی جس کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے جو موجودہ جنگ کی تکنیک سے واقف تھی اور جس نے جنگ کے آخر زمانہ میں جابجا دشمن سے ایک باقائدہ فوج کی طرح مقابلل کرکے اس کو پسپا کیا ہیی وہ موخرالذت کی صورت حال تھی جس نے حکومت فرانس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا کیونکہ گوریلوں نے دشمن کی فوج کی ایک بہت بڑی تعداد کو ہلاک کردیا تھا جس سے فرانس کے بہت خاندان بے چراغ ہوگئے تھے والدین صف ماتم رکھے گئی تھی خود ان کے ملک کی رائے عامہ اس جنگ کے خلاف ہوگئی تھی جس سے فرانس کی معیشت اور اقتصادی حالت مفلوج ہوکر رہ گئی تھی

گوریلہ فوج کے مقابلہ کی فرانسیسی فوج میں طاقت نہیں تھی دشمن کو جب بھی گوریلہ غافل دیکھتے ٹوٹ پڑتے تھے اور اس کی نفری قوت کو جتنا نقصان پہنچانا ہوتا پہنچا کر برق رفتاری سے اپنے پہاڑی پناہ گاہوں میں چھپ جاتے تھے فرانس کے فوجوں کو ان کا پتہ چلانا مشکل تھا گوریلوں کے بعض علاقہ ایسے محفوظ تھے کہ فرانسیسی پیدل فوج داخل ہونے کی ہمت نہیں کرتی تھی اور جہاں تک فوجی ٹرکیں جاسکتیں تھیں وہ جاکر ناکام واپس ہوجاتی تھی اس لئے کہ پہاڑ کے اندر غاروں اور ناقابل عبور مقامات پر نیشنل فرنٹ نے اپنی فوجی اڈے قائم کئے تھے جن کی حفاظت کا بھی انہوں نے پورا اہتمام کیا تھا اور اپنی فوجی مہم کو ناکامی سے بچانے کے لئے فرانسیسی فوجوں نے ہلی کاہٹروں کا استعمال شروع کیا کیونکہ جٹ اور دوسرے ہوائی جہاز ان علاقوں میں اپنی افادیت کھوچکے تھے فرانسیسی فوج کو سب سے بڑی مشکل یہ پیش آرہی تھی کہ اس کے دشمن کے اڈوں کا پتہ لگانا ناممکن ہوتا تھق کیمپ کے عارضی حالات ان کے لئے ناموافق تھے اور وہاں کے پہاڑی علاقے ان کے دشوار گزار جب ایک وسیع علاقہ فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے بکھرے ہوئے ہوں تو ہلی کاپٹر وہی سے انکی نقل و حرکت اور موجودگی کا پتہ چل سکتا ہے علاوہ ازیں ان سے چار مختلف قسم کے کام لئے جاسکتے ہیں۔

(1)فضائی منصوبہ بندی کے زریعہ محاصرہ۔

(2)منصوبہ بندی کے علاقہ میں فوری طور پر تبدیلی۔

(3)ہیلی کاپٹروں کے استعمال کے وقت فوجی کاروائی میں تیزی۔

(4)صحرائی علاقہ میں مکمل ہوائی کاروائی۔

اور اسی طرح نیشنل فرنٹ کی جدوجہد کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں خواتین کا کردار اور ریڈیوں کا کردار نیشنل فرنٹ نے قومی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے خواتین کو اپنی پالیسوں کا حصہ بنایا اور سامراجی پروپگنڈوں کا اثر زائل کرنے کے لئے ریڈیو کو اپنا ہتھیار بنایا۔

جنگ آزادی میں عورتوں کا کردار۔
شیکسپئر نے عورت کے بارے میں کہا تھا ”اے عورت!تو مجسم جلوہ گری ہے اور دنیا پر بغیر فوج کے حکومت کرنا تیرا ہی کام ہے۔ایثار’خدمت’ہمدردی اور محبت کے جذبات اگر کسی پیکر میں محسوس کئے جاسکتے ہیں تو وہ عورت ہے۔

چے خف کا قول ہے کہ عورت مرد سے زیادہ محنتی سمجھداف اور نیک ہے بھلائی کے کام اس طرح سرزد ہوتے ہیں جیسے آسمان سے بارش برستی ہے۔ جب استعمار کے خلاف جدوجہد آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو عورت کے کردار میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور وئی پردہ جو قدامت پسندی کی علامت سمھجا جاتا تھا اب نئی جہت ایک انقلابی جہت اختیار کرلی انقلابیوں کے سامنح وقتی طور پر ضروری نہیں ہوتا کہ آپ استعمار کے خلاف جنگ میں قدم روایات اور رسم رواج کی بحالی کا سامنا کریں اور ان کا صرف اور صرف سامراج کے خونی پینجوں کو اکھاڑنا ہوتا ہے 1955 تک جدوجہد آزادی کا سہرا مردوں کے سر رہا انہوں نے عورت کو میدان میں کانے کا نہیں سوچا بلکہ انقلابی کی حتمی کوشیش ہوتی تھی کہ اس دوران اپنی بیوئی یا کسی بھی متعلقہ خاتون کا نام خفیہ رکھے لیکن تحریک آزادی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے مسائل سے دوچار ہوئی جن کو دور کرنے کے لئے فوری مناسب حل کی ضرورت تھی اس لئے عورت کو استعمار کے خلاف جدوجہد آزادی کا حصہ بنایا گیا تاکہ وہ اس کے لئے عورت کو استعمار کے خلاف جدوجہد آزادی کا حصہ بنایا گیا تاکہ وہ اس محاز ہر پڑی جانے والی جنگ میں اپنا کردار ادا کرسکے خاتون خانہ بڑی سوچ و بچار کے میدان کار زار میں خود پڑی اس نے روایاتی مسلم خاتون کے طور اپنی زمہداریا سنھبال لیں جن میں پہاڑوں کے دامن میں جدوجہد آزادی کی جنگ لڑنے والی گوریلہ سپاہوں کی مریم پٹی کرنا انہیں خوراک اور زندگی کی دیگر مناسب سہولتیں فراہم کرنا شامل تھا

رہنماوں میں ہر ایک اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر تحریک آزادی میں حصہ لینے والی کوئی بھی عورت دشمن کے ہاتھ چڑگئی تو وہ صرف اسے تشدد کا نشانہ ببائیں گے بلکہ اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد اسے موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی گریز نہیں کریں گے اس لئے جو کوئی عورت اس کھٹن راہ پر چلے گی اس کا لازمی نتیجہ موت کو گلے لگانے کا مترادف ہوگا انقلابی عورت نے اس میدان میں کھبی سستی یا غفلت کا مظائرہ نہیں کیا جب بھی اسے کسی مشن کی تکمیل کے لئے بلایا گیا اس نے فورا لبیک کہا اور انقلابیوں سے رابطہ کرکے نہ صرف اپنے قریہ قریہ بستی بستی قائم ہونے والے نیٹ ورک میں مل کر انقلابیوں کے مابین بنے والی زنجیر کا حصہ بنی اس دوران وہ فطری طور اس قدر زہین واقع ہوئی کہ اپنی ناخواندگی کے باوجود اس انقلابیوں کے خفیہ پیغامات زبانی یاد کرلئے عورت اس قدر ہوگئے جب جنگ کا دائرہ کا فرانسیسی استعمار کے نئے تعمیر کردہ شہروں تک بڑھا تو عورت نے مزید انقلابی جزبے کے تحت اپنا نقاب اتار دیا لیکن ہیاں اس غلط فہمی کا۔شکار نہیں ہونا چاہے کہ اس نے ہوس پرستی کے تحت ایسا کیا عورت نے بہت جلد اپنی بہادری کو منوایا ایک انقلابی عورت نے جس نے عظیم مقصد کے لئے مغربی طرز اختیار کرلی ہے حقیقت میں وہ انقلابیوں کا ایک حصہ ہے اس کے پرس(bag) میں خود کار پیستول pistol ریوالور Revolver کارڈ ہیں اور نہ جانے کتنے جعلی شناختی کارڈ جو اس نے پولیس کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے پاس رکھے ہیں جب 1957 میں تحریک زوروں پر تھی ہئی نقاب پھر لوٹ آیا معاشرتی اقدار ہوگئیں عورت کا احساس تہنائی اور ننگا پن جاتا رہا عورت نے چار دیواری بنا لیا لیکن اس کے انقلابی اقدامات میں زرہ پھر اقدامات میں زرہ نہ آیا بلکہ وہ پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے منزل کی جانب رواں دواں ہوگئیں آج ہمیں الجزائری تحریک سے سیکنا ہوگا کہ الجزائریوں نے کس طرح اپنی جدوجہد کو برقرار رکھا اور تحریک کو منظم کیا آج ہمیں بھی اپنی تحریک میں عورتوں کو شریک کریں تاکہ آنے والے وقتوں میں ہم بھی اپنی تحریک کو برقرار رکھے۔

ریڈیو کا کردار۔
ریڈیوں کا کردار آج کی ترقی یافتہ دنیا میں مظلوم عوام اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کہیلے مختلف زرائع کو استعمال میں لاتی ہے سوشل میڈیا ریڈیو ٹی وی اخبارات لیکن الجزائری

عوام نے اپنی تحریک آزادی کے دوران ریڈیوں کا بھر پور استمال کرکے اپنی آواز کو دنیا تک پہنچایا اور اسکے علاوہ اپنے عوام کی ہمت بڑھانے اور انہیں مایوسی سے بچانے کے لئے اس کو استعمال کیا 1955 میں فرانسیسی سامراج نے ترقی کے نام پر ریڈیو کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا الجزائر میں مقیم آبادی کے ہر فرد کے ہاتھ میں ریڈیو دیا گیا یہ ریڈیوں فرانس کے لئے ایسا آلہ تھا جس کے استعمال سے انہوں نے ایک طرف اپنی عوام کی ہمت کو بڑھایا اور دوسری طرف الجزائری عوام ریڈیو سے اس لئے بھاگے کہ انہیں خوف

تھا کہ کئی ریڈیوں سے ہم اپنی معاشرتی روایات سے محروم نہ ہوجائے کیونکہ ریڈیو میں وہ پروگرامز نشر ہوتے جن کا الجزائر تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہ تھا ریڈیو الجزائری فرانسی سامراج کی آواز تھا ریڈیو ہر وقت اپنے وفادار ہونے کی دعوت دیتا اور مقامی لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کرتا چیک پوستوں پر ڈیوٹی کرنے والے فوجی بڑے فخریہ انداز میں یہ بات کہتے جس کے پاس ریڈیو نہیں وہ پسماندہ ہے ریڈیو کو فرانسی استعمار نے تعمیر کے لئے تخریب کے لئے استعمال کیا سامراج کے ہاتھوں ریڈیو ایک قصبے کا زریعہ تھا الجزائر پر قبضہ مقامی لوگوں پر قبضہ انکی ثقافت پر قبضہ ریڈیو کا اتنا منفی اثر تھا کہ لوگ اپنے کلچر سے جدا ہوکر رہ گئے ریڈیو پر ایسے ایسے پروگرام نشر کئے جاتے تھے کہ لوگوں میں اپنی زات سے بیزاری کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت سے نفرت پیدا ہوگئی اس چیز نے نفسیاتی طور پر انہِیں تہنائی کا شکار کرکے رکھ ہم دیکھ چکے ہے کہ فرانسیسی ریڈیو پر سنی جانے والی آواز غیر جانبدار نہیں بلکہ یہ استعمار کی آواز ہے حکم کی آواز غاضب کی آواز اور دشمن کی آواز تھی الجزائر پر 1954 سے قبل ریڈیو ایک برائی کی علامت سمھجا جاتا تھا لیکں 1954 کے بعد لوگوں میں شعوری انقلاب پیدا ہونے کی صورت میں حال سرا تبدیل ہوگئے قوم کا احساس محرومی ختم ہوگیا اب ریڈیو کی آواز انہیں زہینی طور پر ڈنسے کء بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اسکے ساتھ ساتھ انقلابی تحریک کا ایک بہت ہی پر مغز اثر ہوا وہ یہ کہ پاسبان مل گئے کعبے کو ضم خانے سے فرانسی استعمار خود آزادی کی آواز بن گئی وہ آواز جو مقامی لوگ اپنے کلچر کے خلاف گالی سمھجتے تھے پہلے ان کے زہنوں میں یہ بات تھی کہ فرانسی زبان میں جانے والی ہر بات اس کے زہر قاتل کا حکم رکھتی ہے علمائے کرام نے اپنی روایات کے مطابق لوگوں کے زہنوں میں یہ بات ڈالی ہے کہ دشمن کی زبان سیکھ لو اسکی فتنے سے محفوظ ہوجاوگے اب یہ آواز لوگوں کی اپنی آواز تھی ان کی ضمیر کی آواز آزادی کی آواز روشن خیالی کی آواز کو دبانے کے بجائے اس کا اظہار کا زریعہ بن گئی ہیاں ہم دیکھتے ہیں کہ ریڈیو الجزائر نے وقت کے تقاضوں کے مطابق کتنی سرعت سے انقلابی اقدامات کئے شروعات میں جب ریڈیو نشریات کا آغاز ہوا تو محدود پیمانے یعنی Short Waves پر تھا لیکن بعد ازاں اسے ترقی دے کر وسیع پیمانے Long waves کے زریعے ملایا گیا اب پہاڑوں میں بسنے والا شخص انقلابی قیادت کے اقدامات اور کاروائیوں سے بخوبی واقف ہوسکتا تھا آخر میں ہئی کہتا ہوں کہ ریڈیوں جو آغاز سفر میں گنا تصور کیا جاتا تھا اب وہ لوگوں کے لئے رحمت ثابت ہوا جو درد بن کے آیا ہی دود کے دوا ثابت ہوا ریڈیو نے الجزائری لوگوں کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کردیا تحریک آزادی میں ریڈیو کا کردار بہت وسیع تھا اور تحریک آزادی میں ایک سیلوگن جس نے ساری عوام کو بیداف کردیا وہ یہ ہے کہ یہ ماں تجھ پے واری رہے جنگ جاری رہے جنگ جاری رلے۔

اور اسی طرح الجزائیوں نے فرانس سے اپنی قومی آزادی 3 جولائی 1962 میں حاصل کی


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔