اجتماعی سزا
ٹی بی پی اداریہ
اجتماعی سزا سے اکثر یہ مراد لی جاتی ہے، جب انسانوں کے ایک گروہ کو کسی اور کے گناہوں کی سزا دی جائے۔ اسکی مثال سابقہ “فاٹا” میں تواتر کے ساتھ دیکھی جاتی تھی، جب کبھی پاکستانی فوج پر حملہ ہوتا تو اسکی سزا اس پوری بستی کو دی جاتی۔ حملے سے نزدیک ترین بستی کو جواب میں پاکستانی فوج کے قہر کا سامنا کرنا پڑتا۔ ان بستی والوں کو جو بھی سزائیں دی جاتیں، انہیں سر عام مارنا پیٹنا ہوتا یا پھر بلڈوزروں سے انکے گھروں کو منہدم کرنا ہوتا، یہ سب سفاکانہ قانون ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) کے تحت قانونی طور پر انجام پاتا۔
لیکن بلوچستان میں پوری بستیاں جلانے کیلئے ایسے کسی قانون کی ضرورت تک پیش نہیں آتی۔ بلوچستان میں ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جب فوجی آپریشنوں کے دوران پوری بستیوں کو نذر آتش کرکے صفحہ ہستی سے مٹایا گیا ہے۔
بہرحال، جسمانی اذیت رسانی اجتماعی سزا کا واحد طریقہ نہیں جس سے بلوچستان کے لوگ گذر رہے ہیں۔ جب بلوچستان میں لوگ “لاپتہ” ہوجاتے ہیں – لاپتہ ہونے کا نرم اصطلاح ان جبری گمشدہ لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے، جنہیں مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کرکے غائب رکھا ہوا ہے۔ ان “لاپتہ ” ہوئے لوگوں کے خاندانوں کی ذہنی اذیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ اس سے عمر بھر نکل نہیں پاتے۔ بلوچستان میں یہ معمول بن چکا ہے کہ ایسے لاپتہ لوگوں کے اہلخانہ شب و روز ایسے احتجاجی کیمپوں میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، جو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے لگائے گئے ہیں۔ بہت سے والدین انتظار کے اس ذہنی کرب کو برداشت نہیں کرسکے ہیں اور انتقال کرگئے ہیں۔
افسوسناک طور پر ایسے ہی تین لاپتہ اولادوں کے والدین صرف گذشتہ ایک ہفتے کے دوران انتقال کرگئے۔ تینوں کم از کم پانچ سالوں سے اپنے اولادوں کو ایک بار دیکھنے کی آس میں چل بسے۔
الٰہی بخش کرد کا انتقال مورخہ 19 اپریل کو ہوا۔ وہ چھ سالوں سے اپنے بیٹے زاہد کرد کا انتظار کررہے تھے۔ زاھد کرد کو جس وقت لاپتہ کیا گیا وہ ایک طلبہ تنظیم بی ایس اوآزاد (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے چیئرمین تھے۔ انہیں چشم دید گواہان کے مطابق 18 مارچ 2014 کو پاکستانی فوج نے کوئٹہ شہر سے اغواء کیا۔ وہ تادم تحریر لاپتہ ہیں۔
دو دن بعد مورخہ 21 اپریل کو لاپتہ جان محمد کی والدہ اپنے بیٹے کی انتظار کرتے کرتے اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ جان محمد بلوچ کو 26 جولائی 2015 کو کوئٹہ میں برما ہوٹل کے سامنے اغواء کیا گیا تھا۔ انکی والدہ پانچ سالوں سے مسلسل احتجاج کرتی رہی اور بالآخر اپنے بیٹے کو دیکھے بنا چل بسی۔
عمران گرگناڑی فروری 2010 سے لاپتہ ہیں، جب انہیں ضلع خضدار کے نواحی قصبے توتک سے ایک فوجی آپریشن کے دوران فوج نے مزید درجنوں افراد کے ہمراہ گرفتار کرنے کے بعد غائب کردیا تھا۔ ان کے والد گامڑ خان گرگناڑی گذشتہ سوموار کو اپنے بیٹے کے انتظار میں چل بسے، وہ بیٹے جسے اب لاپتہ ہوئے ایک دہائی پوری ہوچکی ہے۔
اسی مہینے کے اوائل میں اپنے بیٹے غلام فاروق کے واپس آنے کے انتظار میں بی بی ماہ گنج بلوچ بھی اپنے بیٹے کی آخری دید سے محروم ہوکر چل بسی تھی۔
یہ المناک کہانیاں محض گذشتہ چند ہفتوں کی ہیں، ایسے اور بہت سارے واقعات ہیں، جو کبھی میڈیا تک نہیں پہنچتیں اور ان لاپتہ افراد کے اہلخانہ خاموشی کے ساتھ ان نفسیاتی اجتماعی سزاوں سے گذر رہے ہوتے ہیں۔
اجتماعی سزا کے اس عمل کو فالفور ختم ہونا چاہیئے، کسی بھی لاپتہ فرد کے اہلخانہ کیلئے یہ ذہنی اذیت انتہائی کربناک ہے۔ اگر کسی ” لاپتہ ” فرد نے کوئی جرم کیا بھی ہے تو اسکی سزا اسکے اہلخانہ کو ہرگز نہیں دینی چاہیئے۔ انکی یہ ذہنی کرب بہت حد تک کم کی جاسکتی ہے اگر ان لاپتہ افراد کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے شفاف طریقے سے عدالت میں ثابت کیا جائے۔